پاکستان پیپلز پارٹی جرمنی کے سینئر کارکن و رہنما قیصر ملک نے کافی عرصے بعد قلم اٹھایا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے میاں برادران کی چھ ماہ کی کار کردگی کا جائزہ لیا ہے، جو اپنا انٹرنیشنل کی وساطت سے حاضر ہے۔ میاں صاحب اقتدار کے تھوڑے سے عرصہ میں زیادہ تر بیرونی ملکوں کے دوروں میں مصروف رہے۔ یہ ویسے بھی میاں بردران کا بڑا پرانا فارمولا ہے، جب بھی کوئی خاص مرحلہ آتا ہے اس وقت ان کو پہلے ہی اطلاع ہوتی ہے کہ اگلے ایک دودن میں یہ بڑا واقعہ ہونے والا ہے تو وہ فورا اور کسی جگہ نہیں تو کم از کم لندن تو ضرور ہی چلے جاتے ہیں۔ نہیں تو پچھلے چھ سال سے پنجاب میں ان کی حکومت ہے، ریمنڈڈیوس سے شروع ہو جائیں اور دیکھ لیں، جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوا میاں بردران ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ پنجاب پاکستان کی آبادی کا تقریبا پینسٹھ فیصد ہے، مگر سابقہ دور میں گالیاں پیپلز پارٹی کو پڑتی رہیں ہے نہ مزے کی بات۔ اب نہ بجلی ہے، نہ گیس ہے، نہ پانی اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ سبزیوں کے بھائو کبھی پیپلز پارٹی کے وقت میں ہوتے تو چھوٹے میاں صاحب نے اپنے تمام طالبان ساتھیوں کو لے کر پیپلز پارٹی کے خلاف جہاد کا اعلان کر دینا تھا۔
تھوڑے سے عرصہ میں اور کیا ہوتاِ؟ یہ کیا کم ہے کہ سابقہ حکومت نے جو طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ شروع کی ہوئی تھی اسکو ختم کرکے ان تمام اسٹیک ہولڈروں سے بات چیت ہو رہی ہے۔ یہ تھیوری بھی انوکھی ہی ہے کہ دہشت گرد پاکستان کی حکومت سے بات کرنے کے لئے برابری کادرجہ رکھتے ہیں۔ کیا بات ہے ہمارے میاں صاحب کی؟ایک اور بات، جس نے عام پاکستانی کو کچھ دن محو حیرت رکھا، کہ ایک ڈرون حملہ میں حکیم اللہ محسود مارا جاتا ہے اور پورے پاکستان میں میاں بردران کی حکومت سوگ میں ڈوب جاتی ہے۔ میاں صاحب کے طبلہ نواز صحافی جو ہر وقت،،، واہ میاں جی واہ،، کا راگ الاپتے رہتے ہیں ہر چینل پر شام غریباں برپا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تو ایک پریس کانفرنس بھی کر دی۔ یہ اس دہشت گرد کے لئے ہو رہا تھا، جس نے ہمارے کئی فوجی جوانوں کے گلے کاٹتے ہوئے ویڈیو بنوا کر چلائی تھی، جس نے پورے پاکستان میں ہزاروں بے گناہ نہتے شہریوں کو شہید کیا، مگر میاں صاحب کا کمال دیکھئے کہ ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے ہم نوا دہشت گردوں کو باعزت رہا کیا، یعنی ملا بردران اور ان کے کئی ساتھیوں کو۔
اب میاں صاحب روزانہ کوئی نہ کوئی پلان کرتے ہیں اور پھر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھ لیا کتنی عاجزی سے حکومت کررہے ہیں ایک دن افتخار چوہدری بڑھک لگاتا ہے کہ میں بڑے کو بھی عدالت میں بلائوں گا (وہ بھی اسلئے کہ افتخار چوہدری کو جو ایک سال کا وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا) تو اسپر فوراً میاں ساحب وزارت دفاع خواجہ آصف صاحب کو دے دیتے ہیں اور وزارت قانون پرویز رشید صاحب کو، تاکہ وہ دونوں روزانہ چیف صاحب کے سامنے پیش ہوتے رہیں۔
Nawaz Sharif
اب میاں صاحب نے ایک اور دھماکہ کر دیا ہے، جسطرح اپنے پہلے اقتدار میں پیلی ٹیکسی کا کیا تھا، پھر گیارہ مئی کے الیکشن کے پہلے بھی لیپ ٹاپ کا کیا تھا۔ کیونکہ میاں صاحب کا دل بڑا ہے، وہ غریبوں کے لئے بڑا درد رکھتے ہیں، جب بھی الیکشن آتے ہیں ان کے دل میں یہ درد جاگ اٹھتا ہے، وہ ان کیلئے کوئی نہ کوئی اسکیم نکال دیتے ہیں۔ اس طرح کچھ غریبوں کا بھی فائدہ ہو جاتا ہے اور کچھ اپنے قریبی۔ کا بھی۔ پیلی ٹیکسی کے وقت بھی غریبوں کے نام پر ایک ایک غریب نے تقریبا دس دس کاریں نکلوائیں اور بعد میں سب کھا پی گئے۔ وہ ملی کس کو تھیں یہ آپ جس جگہ رہتے ہیں وہاں سے پتہ کرلیں، آپ کو پوری تفصیل مل جائے گی۔
اب ماشااللہ میاں صاحب کو پھر غریب کا درد اٹھا۔ انہوں نے رات کو خواب دیکھا کہ پاکستان کے غریب آدمی کو قرض دینا فائدہ مند ہے، جس سے پاکستان کی حالت بدلے نہ بدلے، ہمیشہ کی طرح میاں صاحب کے ارد گرد والوں کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ ا س نئی اسکیم میں بسم اللہ اسکی چیئر پرسن میاں صاحب کی صاحبزادی سے شروع ہوئی ہے۔ اس اسکیم کی افتتاحی تقریب میں جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انکے چہروں سے تو ویسے ہی غربت جھلک رہی تھی۔ ہر کوئی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسکی تفصیل جتنی سامنے آئی ہے اسمیں قرض کی رقم بیس لاکھ تک ہے۔ یہ سننے کی حد تک تو بہت ہی لا جواب اسکیم نظر آتی ہے مگر اسکو منظر عام پر لانے والے اسحاق ڈارسے تو اللہ بچائے۔ پتہ نہیں وہ کیا کریں گے۔ وہ تو پہلے بھی وعدہ معاف بن گئے تھے۔ اس مرتبہ اللہ ہی جانے کیا ہو گا؟
اب ذرا یہ بھی سن لیں کہ یہ اسکیم غریب نوجوانوں کے لئے ہے۔ اس سکیم کا اعلان کرتے وقت میاں صاحب بھی کتنے آزردہ تھے، لگ رہا تھا کہ واقعی ان کے دل میں غریب آدمی کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ایک آدمی جو قرض کی درخواست دے گا اسکے کاغذات کی چھان پھٹک ہو گی اور اس کے بعد اگر اسکی لاٹری نکل آئی، اسکو قرض ملنے کا حقدار سمجھا گیا، تو اگلا مرحلہ یہ ہے کہ اگر اسکو دو لاکھ کا قرض چاہئے تو اسکو ایک ضامن ایسا لانا ہو گا، جو ضمانت کے طور پر تین لاکھ کی اپنی کوئی جائیداد یا نقد شو کرائے گا تب جا کر اس غریب آدمی کو کوئی قرض ملے گا، کیوں ہے نہ کمال کی بات؟ اب ایک غریب آدمی جس نے اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر تھوڑا پڑھا بھی لیا کوئی ایک آدھ ڈگری بھی لے لی، وہ کوئی کام تو کر ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ آج میاں صاحب کی حکومت میں جو سبزیوں کی قیمت ہے، بجلی کے بل ہیں وہ تو آدمی دے نہیں سکتا، تو اپنے بچوں کو کوئی کاروبار کیسے کروا سکتا ہے؟ یہ سب میاں صاحب کو علم ہے۔
اب آپ دو جمع دو چار خود کر لیں۔ یہ اسکیم نکالی ہی گئی ہے فرضی غریبوں کے لئے۔ کیونکہ کہ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی اپنے لوگ کوئی فرضی نام دے کر قرض لیں گے اور بعد میں دما دم۔ بھلا یہ بتائیں کہ ایک غریب آدمی جسے کوئی دو سو روپے ادھار نہیں دیتا، اسکی دو لاکھ کی ضمانت کون دے گا؟ اسلئے یہ ا سکیم اپنے ہی لوگوں کے لئے ہے، ان کو ہی نوازنے کا ایک نیاا نداز ہے۔اگر میاں صاحب واقعی غریب آدمی کی حالت کا درد رکھتے ہیں توذرا ہمیں بھی سمجھا دیں کہ ایک غریب آدمی کابچہ ، جس نے اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ کا ٹ کر تعلیم حاصل کی ،جو کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہے تووہ ضامن کہاں سے لائے گا ؟اسلئے میاں صاحب !ڈرامے بازی نہیں واقعی کوئی کام کریں، جس سے غریب کے چہرے پر خوشی آئے۔ میاں صاحب آپ اعلان کریں کہ غریب کے تعلیم یافتہ بچے کی ضامن حکومت ہو گی، اسکو بغیر سود کے قرضہ دیا جائے گا جس پر کم از کم پہلے پانچ سال تک کوئی سود نہیں ہوگا تو پھر ہم ہی کیا ساری دنیا کہے گی کہ” واہ میاں صاحب واہ! کیا بات ہے ہمارے وزیراعظم کی، ہمارے وزیر اعظم نے تو کمال کر دیا۔