جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی کمیشن کی خاتون صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین کے مطابق عام انسانوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور اشیاء کی بلا روک ٹوک نقل و حمل کے ضامن یورپی یونین کے آزاد سرحدی معاہدے شینگن کے بغیر یورپ جمود کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔
فان ڈیر لاین نے پیر تیس نومبر کے روز برسلز میں کہا کہ یورپی یونین کے آزاد سرحدی معاہدے کے نتیجے میں قائم ہونے والے شینگن زون کا ماضی کی نسبت آج زیادہ دل جمعی سے تحفظ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ یورپ جس طرح آگے کی طرف بڑھ رہا ہے، اس عمل کی حفاظت اور تسلسل کے لیے شینگن معاہدے پر مستقبل میں زیادہ سختی سے کاربند رہنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والی اُرزُولا فان ڈئر لاین نے یونین کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ اور یورپی پارلیمان کے نمائندوں کے شینگن فورم نامی اجتماع سے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اگر شینگن معاہدے پر عمل درآمد رک جائے یا معطل کر دیا جائے، تو یورپ بالکل جمود کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
فان ڈیر لاین نے کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران جب یونین کے رکن کئی ممالک نے اپنی سرحدیں عارضی طور پر بند کر دی تھیں، تو یورپ کا متحرک ہونا اس کے جمود کا شکار ہو جانے میں بدل گیا تھا۔
یورپی کمیشن کی صدر نے شینگن فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں اس امر کی شدت سے قائل ہو گئی ہوں، اور یہی بات کورونا وائرس کی عالمی وبا نے بھی ثابت کر دی ہے، کہ یورپی یونین کا شینگن معاہدہ اور اس کے نتیجے میں بننے والا شینگن زون ہماری انتہائی قیمتی کامیابیاں ہیں۔ اس لیے ہم کبھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ یورپی یونین کا اتنا بڑا اور متاثر کن منصوبہ کبھی ناکام ہو جانے کے خطرے کا شکار ہو جائے۔‘‘
شینگن معاہدہ بنیادی طور پر یورپی یونین کا آزاد سرحدی معاہدہ ہے، جس میں یونین کے 28 میں سے 26 رکن ممالک شامل ہیں۔ تاہم اس میں اپنی سہولت کے لیے کئی ایسے یورپی ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں جو یورپی یونین کے رکن تو نہیں ہیں لیکن شینگن زون کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کئی یورپی ریاستوں نے کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے نقطہ نظر سے اپنی قومی سرحدیں عارضی طور پر بند بھی کر دی تھیں۔