علماء کی اپیل اور مہنگائی کا نیا طوفان

Taliban

Taliban

گزشتہ روز اخبارات میں علماء اکرام کی طرف سے ایک بہت فکر مندانہ بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ، رسول کے نام پر جنگ بند کریں علماء کی حکومت اور طالبان سے اپیل۔ ملک کے نامور علماء کے اجلاس میں وفاق المدارس کے رئیس مولانا سلیم اللہ خاں، مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی، مولانا عبدالرزاق، مولانا شیر علی، مفتی مختار الدین، مولانا محمد حنیف جالندھری، مفتی منصور اور مولانا حسن شریک ہوئے۔

اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے پے درپے دہشتگردی کے واقعات پر گہری تشویش اور بے گناہوں کے قتل عام پر افسوس اور متاثرین کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا گیا، علماء اکرام نے حکومت اور طالبان سے اپیل کی کہ اللہ ،رسول کے نام پر فوری طور پر جنگ بند کردیں اور جب تک مذاکرات کسی نتیجے پرنہ پہنچ جائیں اس وقت تک ہرقسم کی مسلح کارروائیوں سے مکمل گریز کیا جائے۔قارئین راقم علماء اسلام کا دل وجان سے احترام کرتا ہے لیکن ذہن میں اُٹھنے والے بہت سے سوالات میں سے ایک سوال علماء اکرام کی خدمت میں پیش کرنیکی جسارت کئے بغیر رہا نہیں جارہا ۔(س) آج مارنے والا بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا ہے اور مرنے والا بھی آخری وقت میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو علماء یہ بتائیں کہ انہوں نے مسلم معاشرے کی کس قسم کی تعلیم و تربیت کی ہے۔

کچھ سوالات اپنے قارئین کی خدمت میں(س)کیا علماء اپنا فرض پوری طرح ادا کررہے ہیں؟ اگر علماء نے اپنا فرض پوری طرح ادا کیا ہوتا تو آج اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والا بے گناہ معصوم لوگوں کو جو اُسی اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں جس کا نعرہ وہ بھی لگاتا ہے قتل کرسکتا تھا؟ کیا علماء کا حکومت اور طالبان سے اللہ، رسول کے نام جنگ بندی کی اپیل کرنا درست ہے ؟چاہئے تو یہ تھا کہ علماء حق کو حق کہتے اور ناحق کو ناحق، جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے احکامات کے مطابق اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اُس کا ساتھ دیتے اور دوسرے گروپ کو صاف صاف وارننگ دیتے کہ اگر وہ اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں سے باز نہ آیا تو اللہ ،رسول کے نام پر اُس کے خلاف جنگ کی جائے گی اور جب تک زندہ رہیں گے اللہ، رسول کے حکم کے مطابق دہشتگردوں کے خلاف لڑیں گے جو لوگ اللہ، رسول کے احکامات کو نہیں مانتے وہ اللہ ،رسول کے نام پرکی گئی اپیل کو کیا سمجھیں گے۔

Allah

Allah

بڑی معروف نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شعر ہے کہ ”تیرا کھائواں تے تیرے گیت گاواں یا رسول اللہ”جو اللہ سے مانگتے ہیں وہ اللہ اور اُس کے رسول کے گیت گاتے ہیں اور جو غٰیروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں وہ غیروں کے گیت گاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر حکومت اور دہشتگردوں سے امریکہ کے نام پر اپیل کی جاتی تو شاید بہتر نتائج برآمد ہوتے۔ سودی نظام کے تحت مسلم ریاست کو چلانے کی کوشش کرنے والوں اور اُن کے ساتھ ذاتیات کی جنگ لڑنے والوں، اللہ تعالیٰ جو رازق حق ہے کو چھوڑ امریکہ اور آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے والوں سے اللہ، رسول کے نام پر جنگ بندی کی اپیل کیا اثر کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتاے گا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اُن پر کوئی اثر ہوگا۔

آئی ایم ایف کا ہر حکم ماننے والے اگراللہ تعالیٰ کے احکامات پر بھی تھوڑا سا غور و فکر کر لیں تو حالات بہتری کی طرف جانے کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔جس دن علماء نے حکومت اور طالبان سے اللہ، رسول کے نام پر جنگ بندی کی اپیل کی اُسی دن آئی ایم ایف کی خوشنودی حاصل کرنے اور پوری طرح غلامی ثابت کرنے کیلئے حکومت نے عوام پر مہنگائی کانیا ایٹم بم گرا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم، بجلی 40 سے 100 فیصد مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری۔ پاکستان میں باہر سے دہشتگردی پھیلائی جا رہی ہے۔

وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف دیکھنے اور پڑھنے میں دونوں خبریں الگ الگ ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف نے بھی اسی دہشتگردی کا ذکر کیا ہے جو آئی ایم ایف کے حکم پر آئے روز بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھا کر عوام پر مسلط کی جاری ہے۔ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی کے ریٹ بڑھنے سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تازہ نوٹیفکیشن کے مطابق نیا ٹیکا 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو لگے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ 50 سے 60 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین بھی شدید ترین مہنگائی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔

کسی محلے کی دکان پر لگے بجلی کمرشل میٹر پر 50 سے 60 یونٹ چلنا انتہائی معمولی سی بات ہے۔ محلے کے غریب دکان دار پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کر کے حکومت اُس کی آمدنی سے کہیں زیادہ وصولی کر رہی ہے۔ غریب لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کے آخر آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والے نئے اور پرانے قرضوں سے اُنھیں کیا فوائد ہوئے؟ حکمران امیر سے امیر تر اور غریب عوام غریب تر ہو چکے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے لیا جانے والا قرض اور دنیا بھر سے عوام کے نام پر لی جانے والی امداد جسے خیرات کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کس کے کام آئے؟ غریب عوام کے یا حکمران طبقے کے بڑے بزرگوں کا کہنا ہے کہ چونھے والے پنڈ پرالیوں نظر آجاندے نے۔ اگر حکومتی طبقے کے گھروں کے باہر پرالی کے ڈھیروں پر نظر کی جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ تمام قرض اور امداد غریب عوام کی بجائے امیر سے امیر تر حکمران طبقے کے حصے میں آئی اور غریب عوام کے حصے میں آیا آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضوں کے سود کی قسطیں ادا کرنا اور امداد دینے والوں کے ڈرون حملوں میں مرنا یا مہنگائی، دہشتگردی،بے روزگاری، ناانصافی اور بھوک سے سسک سسک کر خودکشی کرنا ہی غریب عوام کا مقدر ٹھہرا۔ دہشتگردی اور مہنگائی نے حکمرانوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر :کاہنہ لاہور
imtiazali470@gmail.com