جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) ہیمبرگ میں محکمہ تعلیم کے حکام نے ایک سولہ سالہ طالبہ کی والدہ کو ہدایت کی تھی کہ ان کی بچی نقاب پہن کر اسکول نہ آئے۔
لیکن اپنے فیصلے میں ہمبرگ کی انتظامی عدالت نے طالبہ کے نقاب پہننے پر پابندی کے خلاف فیصلہ دیا۔ عدالت نے پیر کو اپنے فیصلے میں کہا کہ ریاستی قوانین کے تحت حکام اس قسم کی پابندی نہیں لگا سکتے۔
عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی۔
لیکن اس فیصلے پر بظاہر ایک تنازع کھڑا ہوگیا ہے اور بعض حلقوں کی نظر میں وقت آگیا ہے کہ ریاستی قوانین پر نظر ثانی کی جائے۔
تعلیم سے متعلق ریاستی سینیٹر ٹائیز رابے نے اسکولوں میں نقاب یا حجاب سے متعلق قانون میں تبدیلی کی اپیل کی اور کہا کہ وہ اس کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا، “آپ کا کلچر یا مذہب کچھ بھی ہو، اسکول میں تو ہر کوئی اپنا چہرہ دکھاتا ہے۔” ان کے مطابق اسکول میں تمام بچوں کو برابری سے سیکھنے کا موقع ملنا چاہیئے، لیکن جب کسی بچے کا چہرہ مکمل طور پر چُھپا دیا جائے تو اس سے تعلیم و تربیت کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
جرمنی میں تعلیم کے حوالے سے قوانین وفاقی سطح کے بجائے ریاستی سطح پر بنائے جاتے ہیں۔ کلاس روم میں چہرے کے مکمل پردہ کے معاملے پر ملک میں قومی سطح پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔
جرمنی کی قدامت پرست حکمراں جماعت کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین(سی ڈی یو)، فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) اور دائیں بازو کی سخت گیر جماعت الٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے سیاست داں ماضی میں نقاب اور برقعے پر پابندی کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
جرمنی کی گرین پارٹی کے کچھ ارکان اس قسم کی پابندی کے سخت مخالف ہیں جبکہ بعض اس کے حق میں ہیں۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں ریاست نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں اسکولوں میں چودہ برس سے کم عمر کی لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کی کوششوں کو بھی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔