تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ دنیا کی ہر قوم کی ترقی و کامرانی کا راز اس کے تعلیمی معیار سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب تک کسی ملک کا تعلیمی معیار اچھا نہیں ہو گاوہ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ معاشرے کو بنانے میں جہاں اور بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں وہاں استاد کا احترام نہایت اہمیت کا حامل ہے ،کیونکہ استاد کی وجہ سے ہی طالب علم ‘علم کی روشنی سے منور ہوتا ہے ۔بے شک کوئی بھی معاشرہ یا فرد یا قوم اس وقت تک ترقی کی منازل کو طے نہیں کرپاتے جب تک اس کو فراہم کردہ مواد یا کتب زمانے کے مطابق نہ ہوں۔بلا شبہ معاشرے کو نکھارنے میں استاد کا ایک اہم عمل ہے ۔یقینا استاد ہی وہ ہستی ہے جس کی وجہ سے آج کا ہی نہیں بلکہ گزرے ہوئے زمانوں کے طالب علم نے بھی فرش سے عرش تک کا سفر طے کیااور یقینا آج کا طالب علم بھی کر رہا ہے ۔ چند لوگوں کو نوازنے کیلئے پاکستان ترقی کا دعویٰ کرنے والوں نے تعلیمی نظام کو تباہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔اس لئے مختلف تجربات سے طلباء وطالبات کے مستقبل کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی تذلیل کی جا رہی ہے۔
بتایاجاتاہے کہ حکومت نے پنجاب میں10ہزار سکول آئوٹ سورس کر نے کا فیصلہ کرلیا ہے جس پر پنجاب ٹیچرزیونین نے دس ہزار سکولوں کو آئوٹ سورس کرنا غیردانشمندانہ اقدام قراردے کر پھر احتجاج کا اعلان کردیا ہے ۔اس حوالے سے پنجاب ٹیچرز یونین کے مرکزی جنرل سیکرٹری رانا لیاقت علی کی جانب جاری بیان میں کہا گیاہے کہ دس ہزار سکولوں کو آئوٹ سورس کرنا غیردانشمندانہ اقدام ہے۔دو سال قبل پانچ ہزار سکولوں کو پیف کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیاتھاان میں سے 4275 سکول حوالے ہو سکے باقی 725 سکولوں کو کوئی لینے کو تیار نہیں ۔ ان میں ناموافق حالات کے باوجود سرکاری اساتذہ تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تعلیمی میدان میں ترقی اتھارٹیز اور تعلیمی اداروں کو آئوٹ سورس کرنے یا پیف کے حوالے کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیکر اور اساتذہ کی مشاورت سے اصلاحات کرنے سے ہو گی۔
موجودہ تعلیمی نظام کو نت نئے تجربات کرکے تباہ نہ کیا جائے ۔پیف کی انتظامیہ اپنی کارکردگی مصنوعی اعدادوشمار پیش کرکے دکھا رہی ہے۔ پرائیویٹ سکول مالکان تین سال کے بچوں کو بھی سکولوں میں داخل کرکے تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں جو کہ رولز کی سنگین خلا ف ورزی ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اساتذہ میں عدم تحفظ کی فضاء کو ختم کرنا ہوگا۔محکمہ تعلیم اور اساتذہ تنظیموں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا ضروری ہے وگرنہ سرکاری تعلیمی ادارے ملکی و غیر ملکی مشیران تعلیم کی وجہ سے تباہ ہو جائیں گے۔لہذا وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ ہے کہ گزشتہ 9سالوںسے ملکی و غیر ملکی نا م نہاد مشیران تعلیم جن کو زمینی حقائق کا ادراک نہیں اور جن کی پالیسیوں کی وجہ سے تعلیمی نظام تنزلی کا شکار ہے سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ خدارا ہوش کے ناخن لئے جائیں اور نت نئے تجربات کرنے سے گریز کیا جائے ورنہ پنجا ب ٹیچرز یونین 10 ہزار سکولوں کو آئوٹ سورس کرنے کیخلاف احتجاجی راستہ اختیار کرے گی۔کیونکہ اتھارٹیز کا قیام ، آئوٹ سورس کرنا یا تعلیمی اداروں کوپیف کے حوالے کرنا غیردانشمندانہ اقدام ہے جس کے خلاف ہم بھر پور احتجاج کا اعلان کرتے ہیں ۔جس کا لائحہ عمل کا اعلان چند روز میں کیا جائے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کے مشہور فلاسفر نے کہا تھا کہ میرے دو باپ ہیں ایک وہ جو حقیقی باپ ”مجھے عرش سے فرش پر لایا اور دوسرا روحانی باپ جو مجھے فرش سے عرش پر لے گیا”۔ میرے نزدیک یقینا اس شخص کا بہت احترام ہے جس کی وجہ سے ایک اچھے معاشرے کو تشکیل دینے میں اہم رول کی حیثیت حاصل ہے ۔اس سے پہلے کہ میں استاد کے مقام کو ہمارے معاشرے میں کیا حیثیت حاصل ہے اس پر کچھ کہوں ضروری سمجھتا ہوں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کروں جو نہایت ہی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔جہاں اللہ تبارک تعالیٰ نے علم حاصل کرنے کیلئے اپنی مقدس کتاب قرآن پاک میں بارہا ذکر کیا وہاں تعلیم دینے والے کی بھی عزت اور احترام پر زور دیا ۔اس سے بڑھ کر استاد کااحترام کیا ہو کہ رسول ۖ فرماتے ہیں :علم کی تعلیم دینا گناہان کبیرہ کا کفارہ ہے ۔استاد کی کتنی عزت ہے اور وہ کیا حیثیت رکھتا ہے شاید میرے لکھے ہوئے فقروں میں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ یہ مرتبہ لکھ سکے۔
یہاں ایک اور بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ کہ حضرت علی فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی ہے اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا وہ چاہے مجھے بیچے یا آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔سبحان اللہ !اس قول سے استاد کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علی جیسے ولی جو شیر خدا بھی ہیں وہ فرما رہے ہیں کہ جس نے مجھے ایک حرف کی تعلیم دی میں اس کا غلام اور ساتھ یہ بھی فرما رہے ہیں چاہے وہ مجھے فروخت کرے یا چاہے غلام بنا لے۔ اللہ اکبر !کہ حضرت علی کے اس فرمان کے مطابق استاد کی کیا اہمیت ہے کیا حیثیت ہے کیا فضیلت ہے۔
یقینا ہر وہ شخص جو دوسرے کو اچھی بات کی تعلیم دے ‘ کسی بری بات سے روکے۔ وہ میری نظر میں استادہے ۔خدا ہمیں اپنے سے بڑوں کا اور ان لوگوں کا خصوصا ً احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن سے ہم لوگ پوری پوری کتابوں کا سبق حاصل کرتے ہیں ۔(آمین) شاید وزیر اعلیٰ پنجاب اور انکی ٹیم تعلیمی نظام کو ایٹمی تجربات کا نام دینے کی خواہش مند ہے جس سے طلباء وطالبات کے مستقبل تباہ ، اساتذہ کی تذلیل سے بڑی کامیابی حاصل ہوگی۔ ملک سٹرکوں ،پلوں ،عماراتوں کی تعمیر نو سے ترقی نہیں کرتے ، ہزار سال قبل تعمیر ہونے والی عمارتیں ہمارے لئے نشانیاں ہیں ۔ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے تعلیمی نظام پر نئے نئے تجربات کا سلسلہ بند کیا جائے۔