تحریر: سلطان حسین ننھا سکول سے آتے ہی امی سے لپٹ گیا اور بولا ”امی پتہ ہے آج مجھے سکول میں ایسے کام کی سزا ملی جو میں نے کیا ہی نہیں ”ماں نے غصے سے لال پیلی ہوتے ہوئے کہا”یہ میرے چندا کے ساتھ زیادتی ہے ‘مجھے تفصیل بتاؤ ”بیٹے نے معصوم بن کر کہا ”امی میںنے ہوم ورک نہیں کیا تھا جس پر ٹیچر نے مجھے سزا دی”یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن اگر ہم دیکھیں تو ہمارا پورا معاشرہ اس شکل میں ڈھل چکا ہے وہ عام آدمی ہو’حکمران ہو یا سیاسی قیادت سب خود کو کعصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دوسروں کو قصور قرار دیتا ہے مارے ہاں ہر شخص ہزاروں گناہ کر کے بھی خود کو بے گناہ اور دوسروں کو قصوروار سمجھتا ہیاور یہ روایت پختہ ہوچکی ہے اس وقت ملک میں پانامہ ہنگامہ جاری ہے اس میں جن کے نام آئے ہیں کوئی اسے را کی سازش قرار دے رہا ہے کوئی اسے مخالفین کی سازش کہہ رہا ہے کوئی بھی خود کو قصوروار نہیں ٹھہرا رہا پانامہ ہنگامہ نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں ایک ہلچل مچا رکھی ہے آئس لینڈ کے وزیراعظم مستعفی ہوچکے ہیں ایک وزیر صنعت نے بھی استعفی دیدیا برطانیہ میں میں بھی وزیراعظم کے خلاف بڑی لے دے ہورہی ہے لیکن خود کو بڑے جمہوریت پسند کہنے والے ہمارے ملک کے بڑے اعتراف کرنے کی بجائے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہوئے خود کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں
پانامہ لیکس کے ذریعے بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیںان فائلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح پانامہ کی ایک کمپنی موساک فونسیکا کے گاہکوں نے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔پانامہ کی ان دستاویزات میں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت کے نام بھی شامل ہیں بشمول ان آمروں کے جن پر ملک کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں۔ان دستاویزات کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60کے قریب رشتہ دار اور رفقا کے نام بھی آئے ہیں۔فائلز میں روسی صدر پوتن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹینا کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد، اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر ہے۔آف شور کمپنیوں کا قیام اگرچہ ٹیکس سے بچنے کے قانونی طریقے ہیں لیکن زیادہ تر یہ ہو رہا ہے کہ دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپائی جارہی ہے ، دولت کیسے حاصل کی ان ذرائع کو خفیہ رکھا جارہا ہے اور اس دولت پر ٹیکس نہیں دیا جارہا ہے ۔پاناما دستاویزیں 11.5 ملین خفیہ کاغذات ہیں جسے قانونی مشاورتی کمپنی موساک فونسکانے تیار کیا ہے یہ کمپنی پانامہ میں قائم ہے اور اس نے 1970 میں کام شروع کیا اس کے پوری دنیا میں 40کے قریب دفاتر ہیں۔ یہ فرم دنیا کی چوتھی بڑی قانونی فرم ہے اور اس کی وجہ شہرت بڑی بڑی شخصیات کے اثاثے چھپانا اور ٹیکس چوری میں مدد دینا ہے۔پاناما پیپرز عالمی سطح پر تعاون کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔
newspaper
ان پیپرز کے لیے کی گئی تحقیقات میں گذشتہ 12 مہینے کے دوران 100میڈیا تنظیموں سے اور 80ملکوں سے تعلق رکھنے والے 400کے قریب صحافیوں نے حصہ لیا۔ان میں بی بی سی کی ٹیم، برطانوی اخبار گارڈین، فرانسیسی اخبار لا موند، ارجنٹائن کے اخبار لا نیسیون شامل ہیں۔اس تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم کا پہلا اجلاس واشنگٹن، میونخ، لندن اور للہیمر میں ہوا جس میں تحقیق کے دائر کار کا تعین کیا گیا۔یہ دستاویزات کیسے افشاں ہوئیں یہ بھی ایک کہانی ہے ایک سال قبل ایک شخص نے جرمنی کے سب سے بڑے اخبار زیدوئچے سائتونگ سے رابطہ کیا اور اخبار کویہ دستاویزات فراہم کرنے کی پیشکش کی یہ سب کچھ فراہم کرنے والے ذریعے نے اس کے بدلے میں کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ سکیورٹی کے بارے میں چند یقین دہانیاں مانگیں۔اخبار نے سارے ڈیٹا کا جائزہ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس یا ICIJ کی مدد سے لینے کا فیصلہ کیا یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔
اس میں برطانوی اخبار گارڈیئن بھی شامل ہیجو اس سے قبل اسی اخبار کے ساتھ آف شور لیکس، لکس لیکس اور سوئس لیکس پر کام کر چکا تھا۔پاناما پیپرز کے ڈیٹا کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ وکی لیکس کی سفارتی کیبلز، آف شور لیکس، لکس لیکس، سوئس لیکس کے سارے ڈیٹا سے زیادہ ہے جس میں ای میلز، پی ڈی ایف فائلیں، تصاویر اور موساک فونسیکا کے اندرونی ڈیٹا بیس کا حصہ بھی شامل ہے جو 1970سے 2016 تک پھیلا ہوا ہے۔دو سال قبل ایک اور ذریعے نے موساک فونسیکا کا ڈیٹا فروخت کیا تھا مگر وہ حجم میں بہت چھوٹا تھا مگر پاناما پیپرز کے ذریعے افشا کی جانے والی دستاویزات میں 214000کمپنیوں کے بارے میں معلومات تھیں۔ان معلومات کے نتیجے میں تفتیش کاروں نے 100کے قریب افراد کے دفاتر پر چھاپے مارے جن میں کومرز بینک بھی شامل تھا۔
Journalists
اس کے نتیجے میں کومرز بینک، ایچ ایس ایچ اور ہائپورنسبینک نے دو کروڑ یوروز کا جرمانہ ادا کیا۔موساک فونسیکا نے ہر کمپنی کے لیے ایک فولڈر بنایا ہوا تھا جس میں کمپنی کی ای میلز، رابطے، بات چیت، ٹھیکے اور ان کی سکین شدہ دستاویزات شامل تھیں۔سب سے پہلے تحقیق کاروں نے سارے ڈیٹا کو بہترین کارکردگی والے کمپیوٹروں پر چڑھایا جس کے نتیجے میں فائلوں کو پڑھنے میں آسانی ملی اور انھیں ترتیب دیا گیا جس کے نتیجے میں صحافیوں کو اس سارے ڈیٹا کو گوگل کی سرچ کی طرح کھنگالنے میں مدد ملی۔چند منٹوں میں سارے ڈیٹا کو سدھارنے کے بعد اس پر تحقیق کا کام شروع ہواجو ایک سال تک جاری رہااس دوران ہر سامنے آنے والے نام کے بارے میں سوالات سامنے لائے گئے کہ ان کمپنیوں میں اس فرد کا کیا کردار ہے، پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ کیا سٹرکچر قانونی ہے؟پورا ایک سال ان ڈاکومنٹس پر تحقیق کی گئی اور بالآخر پتہ چلا لیا گیاکہ وہ تمام ڈاکومنٹس جو ان کے پاس ہیں وہ بالکل اصلی اور درست ہیںع(مومی طور پر آف شور کمپنی رکھنا غیر قانونی نہیں ہے بلکہ آف شور کمپنیاں بنانے کو بڑے پیمانے پر کاروباری سودے کرنے کی جانب قدم سمجھا جاتا ہے)۔
جرمن اخبار نے اس پورے ڈیٹا کا خلاصہ رپورٹ کی شکل میں اپریل 2016 کو جاری کردیا اور اسے “پانامہ پیپرز لیک” کا نام دیا اس وقت تک ہونے والے انکشافات میںیہ تاریخ کے سب سے بڑے انکشافات ہیں جس میں تقریبا سوا کروڑ ڈاکومنٹس کو افشاںکیا گیا ۔ جس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فانڈیشنوںکی تفصیلات ہیںان دستاویزات میں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت کے نام شامل ہیں اس لا کمپنی نے کئی ارب پتیوں کو جعلی ملکیتی حقوق کے دستاویزات دئیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔اور یہی کام اس کمپنی نے نہ صرف پاکستانی حکمرانوں بلکہ سیاستدانوں کے لیے بھی انجام دیا پانامہ کی فہرست میں صرف شریف فیملی کانام ہی نہیں بلکہ بعض سیاستدانوں ‘صنعت کاروں ‘ سابق حکمرانوں اوران کے قریبی دوست احباب کے نام بھی موجود ہیںپانامہ لیکس میں پاکستانیوں کی ایک طویل فہرست ہے اور اس میں زیاتر وہی لوگ ہیں جو عوام کے” غم” میں دن رات ”گھلتے ”جارہے ہیںاور ان کے مسائل کے حل کرنے اور اس ملک کو لندن پیرس اور امریکہ بنانے کے دعوے کر رہے ہیں ان دعوؤں کی حقیت کیا ہے اب تو لوگوں کو سمجھ آجانی چاہیے۔اب کوئی بتائے کہ جوکچھ ہورہا ہے کیا یہ” چندا” کے ساتھ زیادتی ہے؟