پاہڑیانوالی میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کی بچیاں موم بتیوں کی روشنی میں امتحانی پرچہ حل کر رہی تھی یہ اخبارات میں شائع ہونے والی یہ تصویر 2014ء کی سب سے خوبصورت تصویر ہیں، اس تصویر میں دس بارہ بچیاں پرچہ حل کر رہی ہیں، ہر بچی کی میز پر ایک موم بتی جل رہی ہے وہ بہت توجہ سے محو ہوکر اپنے کام میں مگن ہیں۔ اس دھیمی نرم سانولی روشنی میں بچیاں اداس لگ رہی ہیں، روشنی انکے شرماتے ہوئے چہرے ہر پڑرہی ہیں، مجھے یہ تصویر دیکھ کر بڑی شرم آئی ہے، پر بجلی و پانی کے وزیر مملکت عابد شیر علی کو شرم کیوں نہیں آئی۔ اس ملک کی ترقی کے لیے قیام پاکستان سے لے کر اب تک جھوٹے وعدے کرنے والے حکمرانوں کو شرم کیوں نہیں آتی، جن کے محلات میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتئ، انکی اپنی بچیاں اعلی شاندار اور بیش بہا اسکولوں میں پڑھتی ہیں جو پکنک منانے امریکہ یورپ جاتے ہیں۔ صرف حکومت اور کرپشن کرنے پاکستان آتے ہیں۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ موسم سرما میں بھی بڑی آب و تاب سے جاری ہیں شہباز شریف کو اب اپنا نام تبدیل کر لینا چاہیے، موسم سرما میں لوڈ شیڈنگ کا یہ حال ہے تو اب موسم گرما کی آمد ہیں تو گرما میں عوام کا کیا حال ہوگا شہباز شریف کے بڑے بھائی وزیرآعظم ہیں۔ ایوان صدر میں اپنے ایک ممنون سیاستدان کو بھی بٹھایا ہوا ہے، لوڈشیڈنگ کے زمہ دار پیپزپارٹی اور صدر زرداری تھے، اب نواز شریف اور سابق صدر زرداری نے مل کر تھرکول کا افتتاح کر دیا، اسکا کریڈٹ نواز شریف کے ساتھ زرداری کو بھی جانا چاہیے، یہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا آغاز ہے، انجام خدا جانے کیا ہو گا، اس سے پہلے بھی تھرکول میں کوئلہ موجود تھا اور افتتاح بھی کئی بار ہوچکا ہے، کہتے ہیں کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہوتا ہے، دلالی مل کر تجارت کرنے میں ہوتی ہے، مل کر سیاست کرنے کو دلالی بننے نہیں دیا جائے گا، اس لیے زرداری کی سب غلطیاں معاف کی جائے، بلاول بھٹو کی شکایت نواز شریف نے زرداری صاحب سے کر دی ہے، آخر بلاول نے سیاست بھی تو کرنی ہے، بلاول نے سندھی ثقافتی میلے میں شریف برادران کو شرکت کی دعوت زرداری کے کہنے پر دی ہے، زرداری نے شہباز شریف کو چھوٹا بھائی کہا ہے تو نواز شریف دونوں کے بڑے بھائی ہیں زرداری نے سندھی ٹوپی اور اجرک بھی شہباز شریف کو تحفے کے طور پر بھجوائی ہے۔
Bilawal Bhutto
پچھلے دنوں ایک بس حادثے میں مرنے والے ساتھی بچوں بچیوں کی یاد میں اپنے اسکول میں موم بتیاں جلائی تھیں وہ تصویر بھی میں نے دیکھی تھی۔ مجھے مرنے والے بچوں اور بچیوں کا دکھ زیادہ ہے، مگر پاہڑیانوالی میں امتحانی کمرے میں جلنے والی موم بتیوں کی روشنی اتنی ہی اداس کرنے والی ہے تو نجانے یہ موم بتیاں کس کی یاد میں جل رہی تھیں، زرداری کہتے ہیں کی بلاول اگلے وزیراعظم ہیں، انکا کریڈٹ بھی یہ ہوگا کہ وہ اپنی ماں کی طرح دنیا کے کم عمر وزیراعظم ہوگے۔ پاکستان کے لوگ ذلت اور اذیت کا شکار ہی سہی مگر اللہ نے کیسے کیسے کریڈٹ یہاں کے حکمرانوں کے لیے رکھ چھوڑے ہیں، اس پر پاکستان کے محکوم محروم اور مظلوم عوام کو فخر کرنا چاہیے۔ موم بتی کی روشنی میں امتحانی پرچہ حل کرنے والی معصوم بچیوں کو بھی فخر کرنا چاہیے، موم بتی کے لیے یہ کوئی خطرہ نہیں ہے ایک موم بتی ختم ہوگی تو دوسری جلالی جائے گی۔ جیسے امیر لوگ بجلی جانے کے بعد جنریٹر آن کرلیتے ہیں۔
حکمرانوں اور افسروں کے لیے تو بجلی جاتی ہی نہیں ہے بجلی تو بس غریب کے لیے جاتی ہے بل بھی غریبوں سے وصول کیے جاتے ہیں، حکمرانوں اور افسروں سے نہیں لیے جاتے بل، موم بتی کے عادی ہونے کے بعد بڑے فخر سے یہ کہا جائے گا کہ ہمارے ہاں تو بجلی آتی ہی نہیں اور ہمیں تو پرواہ بھی نہیں، مجھے امتحان کے لیے موم بتی جلا کے بچیوں کا مستقبل روشن کرنے والی استانیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور گزارش کرنا چاہیے کہ وہ موم بتیوں کے بجائے دیے چراغ جلا لیا کریں تو بچیوں کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ مٹی کا دیا جلتا ہے تو سارا ماحول نرم دھیمی سرمئی سانولی روشنی سے جگمگا اٹھتا ہے، مجھے اپنے بچپن کے وہ دن یاد آتے ہیں جب ہماری پیاری امی جان ہمارے پڑھنے کے لیے مٹی کا دیا جلاتی تھی، اب گاؤں میں شہر میں بجلی آگئی ہے تو لوڈ شیڈنگ کا راج ہے۔ اب تو مٹی کا دیا بھی مائیں جلانا بھول گیئں ہیں، کچھ گھروں میں یہ سہولت بھی موجود نہیں ہے نہ چولہا جلتا ہے نہ دیا جلتا ہے، اب تو مزاروں پر بھی دیے نہیں جلتے، دعائیں قبول ہوتی ہے نہ بد دعایئں قبول ہوتی ہے اب، علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن