تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا تعلیم ہی نے انسان کو پرندوں کی طرح اڑنا سیکھایا ہے۔ تعلیم ہی کی بدولت انسان نے مچھلیوں کی طرح تیرنا سیکھا ہے۔ انسان کو میدانوں سمندروں ہوائوں اور فضاؤں کو تمسخر کرنا تعلیم نے ہی سیکھایا ہے۔ دنیا نے تعلیم کو سمجھنے کے لئے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک مہذبی یا دینی تعلیم اور دوسری دنیاوی یا رسمی تعلیم۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کوئی بھی ماں باپ ہو ،امیر غریب کی قید نہیں اور نہ ہی پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہونے سے فرق پڑتا ہے۔ بلا شک و شبہ ہر ایک کی ایک ہی خواہش ایک ہی تمنا ایک ہی آرزو ایک ہی خواب ہوتا ہے۔ کہ میرے بچے پڑھ لکھ کر اچھے شہری بن جائیں اور ملک و قوم کی خدمت کر کے، اپنے ماں باپ اور اپنے اساتذہ کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کا نام روشن کریں۔
پاکستان میں نظام تعلیم کا کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک پرائیویٹ نظام تعلیم اور دوسرا سرکاری نظام تعلیم ۔سرکاری تعلیمی اداروں کی بھی دو اقسام ہیں ایک پبلک یعنی ہر خاص و عام کے لئے۔ دوسرے فوجی تعلیمی ادارے۔ہر تعلیمی ادارا اپنے اپنے مورچوں میں رہتے ہوئے وطن عزیز سے افلاس ، جہالت کا خاتمہ کر کے روشنی بکھیرنے میں مصروف عمل ہیں۔ پچھلے سال دسمبر میں پشاور کے فوجی سکول پر جو دہشت گردی کی بزدلانہ واردات ہوئی اسمیں معصوم بچوں کے ساتھ ساتھ جن ٹیچرز نے جام شہادت نوش کیا ۔دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو کر ملک عزیز کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بھی سر فخر سے اونچا کر دیا۔پھولوں کے جنازوں پر ہر آنکھ اشک بہہ رہی تھی مگر قربان جاؤںان ماں باپ پر جو بچوں کی شہادت کے صدمہ سے چور چور ہونے کے باوجود مایوس نہیں تھے۔اور سلام ہے شہادت کے درجہ پر فیضیاب ہونے والے ٹیچرز کو جو مر کر امر ہو گئے۔
Teacher
استاد استاد ہی ہوتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق فوجی ،سرکاری یا پرائیویٹ تعلیمی اداے سے ہو۔جب بھی بات ہوگئی طالب علموں پر قربان ہونے کی تاریخ سانحہ پشاور کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گئی بلکل اسی طرح گجرات کا واقعہ کبھی تاریخ کے اوراق سے کھرچا نہیں جا سکتا۔ پچیس مئی ہفتہ کے روز راجیکی،کوٹ کھگہ،کنگ سہالی اور چنن سے ستائیس بچوں اور ایک ٹیچر سمیعہ نورین۔سکول وین موضع کوٹ فتع دین مزید بچوں کو سکول لانے کے لئے روانہ ہوئی تو اسی دوران پٹرول لیک ہونے کی وجہ سے وین میں آگ بھڑک اٹھی۔ ڈرائیور چھیلانگ لگا کر فرار ہو گیا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے بچوں نے چھلانگ لگا کر اپنی اپنی جان بچائی۔لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت وین کے شیشے ڈنڈوںکی مدد سے توڑے اسی دوران دودھ فروش نے آگ بجھانے کے لئے وین پر اپنا دودھ انڈیل دیا۔ٹیچر سمیعہ نورین بحفاظت نیچے اتر کر بچوں کی چیخ و پکار برداشت نہ کر سکی۔ بھڑکتی ہوئی آگ میں دوبارہ بچوں کو بچانے کے لئے کود پڑی۔چھ بچوں کو آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں سے بچا سکی۔ جب ساتویں بچے کو بچانے کے لئے آگ کو پکارا تو آگ کے ظالم شعلوں سے ہار کر بچوں کے ساتھ رب العزت کی بارگاہ میں کامیاب ہو گئی۔سمیعہ نورین کی شہادت نے ثابت کر دیا۔۔۔۔۔۔ زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ہے۔
بلا تفریق سرکاری ،غیر سرکاری اور فوجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام جو جام شہادت نوش کر چکے ہیں سب کو نشان حیدر عطا کیا جائے۔اور جو خواتین استاد ہیں بلخصوص پرائیویٹ تعلیمی نظام میں ان کو زندگی میں ہی ٹیچر کے مرتبے کے حساب سے سہولیات مہیا کرنا حکومت کا کام ہے کیا کبھی کسی نے سوچا ہے ایک کوالیفائیڈ ٹیچر جو گریجویٹ ہونے کے علاوہ پروفیشنل بھی ہے پرائیویٹتعلیمی ادارے سے اس کو عام مزدور کے برابر بھی تنخواہ نہیں ملتی۔ساری عمر پڑھنے پڑھانے میں گزارنے کے باجود کوئی مکان کوئی میڈیکل کوئی عمرہ حج کوئی پنشن وغیرہ کچھ بھی نہیں ملتا۔حالانکہ ایسی خواتین ٹیچرز کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے جو غیر شادی شدہ ہوتیں ہیں کاش گورنمنٹ بیت المال ، زکواة اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے ایسا طریقہ رکھے جو شادی کے وقت اور مشکل وقت میں پرائیویٹ سکول ٹیچرز کا سہارا ہو۔ جب ایسا ہو جائے گا تو پھر ہر گھر سے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے پیدا ہونگے تب دنیا کی سپر پاور اسلامی جموریہ پاکستان ہوگا۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو بچاری ٹیچرز کا درد سمجھنے کی توفیق دے