تحریر : عارف رمضان جتوئی میں جیسے ہی ایس ایم لاء کالج کے گیٹ سے اندر داخل ہوا سامنے کھڑے تین لڑکوں نے میرا بغور جائز لیا۔ باریش چہرا، سادہ سے کپڑوں اور جوتے کے ساتھ میرا یوں یونیورسٹی میں داخل ہونا انہیں عجیب تو لگا ساتھ میں ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات بھی نمایاں تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے کچھ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر گویا ہوا ”کہاں جارہے ہو؟ اتنے میں دوسرے نے جملہ کسا ”مسجد دوسرے محلے میں ہے آپ غلط جگہ آ گئے ہو“ جس پر تینوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔
ان کی باتوں پر میں مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر آگے جانے کے لئے بڑھا۔ میری طرف سے رد عمل نہ پا کر ان میں سے ایک نے پھر آواز لگائی ”یہ جگہ تمہارے جیسوں کی نہیں ہے، تم شاید غلطی سے یہاں آگئے ہو وہ ابھی کچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ اتنے میں سامنے سے کالج کے سینئر ترین پروفیسر اور سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے ایڈوکیٹ شفیع محمدی آتے دیکھائی دیے۔ وہ تینوں لڑکے مجھے چھوڑ کر ان کی طرف لپکے اور انہیں گروپ فوٹو بنانے پر اسرار کرنے لگے۔ جس پر انہوں نے اپنی مصروفیات کا اظہار کرتے ان سے معزرت کر لی۔ پروفیسر شفیع محمدی ان سے فارغ ہو کر میری طرف متوجہ ہوئے اور میرے ہاتھ کو مشفقانہ اندازمیں پکڑتے ہوئے کالج کے اندر چلے گئے۔
باتوں کا سلسلہ چلتے پھرتے ہوتا رہا اور پھر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ جب میں بھی واپس جانے کے لئے پلٹا تو وہ تینوں لڑکے اب بھی گیٹ کے پاس کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں جوں ہی ان کے پاس سے گزرنے لگا ان میں سے ایک مجھ سے ہوکر کہہ نے لگا آپ شفیع صاحب کو کیسے جانتے ہیں؟ کس کام کے لئے ان کے پاس آئے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کسی کام سے نہیں بلکہ ان کے بلانے پر آیا تھا۔ وہ مجھے ایک ابلاغ عامہ کے ادارے کے نمائندے کے طور پر جانتے ہیں۔ میری ظاہری حالت کو ایک بار پھر غور سے دیکھنے کے بعد اس لڑکے نے ہلکے سے کہا آپ لگتے تو نہیں ہیں کہ آپ کسی اشاعتی ادارے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ میں ان کی بات سن کر صرف مسکرا ہی سکا اور پھر میں وہاں سے چل دیا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اب معیار کی بجائے صرف چہروں اور ظاہری شکل و صورت پر توجہ دی جاتی ہے۔ کام کیسا ہے اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں تاہم کام کرنے والا کیسا ہے اس پر ضرور غور کیا جاتا ہے۔
Journalism
گزشتہ روز ایک ساتھی صحافی بتانے لگے کہ ”اب میڈیا کے اداروں میں بھی معیار کم اور تعلیمی اسناد اور ظاہر لکنگ پر بہت غور کیا جارہا ہے“۔ جب ہم نئے اس فیلڈ میں آنے کا ارادہ کر رہے تھے تو سینئر ترین صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار عبد الجبار ناصر نے ایک میڈیا ورکشاپ میں کہا تھا کہ صحافت میں معیار کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ تاہم ان کی باتیں اپنی جگہ ٹھیک تھیں شاید اُس وقت صحافتی ادارے معیار پر ہی کام کر رہے تھے مگر اب ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ اب چہرے اور شکل و صورت کو دیکھ کرہی کوئی ادارہ لیتا ہے۔ یا پھر سفارش پر ہی ان اداروں میں جگہ مل پاتی ہے۔ کچھ روز قبل مجھے ایک ٹی وی چینل میں رپورٹنگ کرنے کا موقع ملا۔ جب بیوروچیف نے دو دن رپورٹنگ کر اکے دیکھ لی، تو بلا کر کہنے لگے کام تو آپ کا دیکھ لیا ہے۔ تاہم اگر آپ اپنے چہرے اور لباس کو تبدیل کر لیں تو ہمیں اسکرین پر لانے کے لئے آسانی ہوگی۔
صحافتی اداروں میں جب یہ صورتحال ہوگی تو ایسے میں شاید معیار ڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا۔ میں نے ایسے کتنے ہی اداروں میں رپورٹروں اور ایڈیٹروں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا ہے کہ ایڈیٹر اپنے رپورٹر کی رپورٹ پر کڑی تنقید کررہا ہوتا ہے۔ جب کہ وہ خود سفارش پر لگا ہوتا ہے اور اسے صحافت کی کچھ بھی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی ۔ رپورٹر محنت کر کے کوئی رپورٹ لے کر آتا ہے تو خود کو ایڈیٹر سمجھنے والا یہ شخص گہری تنقید کا نشانہ بنا ڈالتا ہے، جس پر رپورٹر کو بہت غصہ آتا ہے۔ ایک بہت ہی بڑی حیثیت رکھنے والے میڈیا گروپ کی ایک رپورٹر نے بڑا عجیب اور افسوسناک انکشاف کیا۔ وہ بتانے لگی کہ میں نے ادارے کو اپنے خرچوں پر بہت سی رپورٹس دیں اور ایک سال سے مفت میں رپورٹنگ کر تی آئی ہوں، تاہم آج تک میرے نام سے کوئی رپورٹ نہیں لگائی گئی۔ ایک مرتبہ میں نے ہمت کر کے اپنے ادارے کے ایک سینئر ایڈیٹر سے اس معاملے پر بات کی تو موصوف نے اپنا نیچ پن دیکھا دیا۔ کہنے لگے ”میڈم آپ کا کام اپنی جگہ اچھا ہے اور ہمیں پسند ہے تاہم کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ جانے موصوف کا اس کھونے سے کیا مطلب تھا تاہم عام لفظوں میں جو کھونا چاہئے تھا وہ تو میں ایک سال سے کھو چکی تھی۔ حالانکہ یہ جملے کہنے والے اس نام نہاد صحافی کا بیک گراﺅنڈ کھنگالیں تو ڈیفنس میں رہنے والے اس صحافی کے نام سے چلنے والی رپورٹس، کالم اور خبریں کسی اور سے روپوں کے عوض لکھوائی جاتی ہیں۔
اداروں میں جب اس قسم کے لوگ بیٹھا دیے جائیں گے تو یقینا صحافت جیسے عظیم اور انبیاءکرام کی سنت کے اس پیشے سے وہ امیدیں وابسطہ کرنا عبث ہوں گی جو عام طور پر عوام الناس لگا بیٹھے ہیں۔ شاید اب صحافت کی تعریف اور اس کے چرچے صرف یونیورسٹیوں اور نصابی کتابوں میں رہ گئے ہیں۔ ایک لمحہ فکریہ ہے ہمارے دانشوروں اور صحافت کے علمبرداروں کے لئے کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اب خود کو صحافی بنانے کے لئے تبدیل کرنا پڑا گے؟ سنت نبویﷺ اور دیگر اسلامی اطوار سے انحراف کرنا پڑے گا؟ کیا پردہ دار کو اپنا پردہ اتارنا پڑے گا؟ ایک شریف النفس کو صحافت میں آنے کے لئے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی؟۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ صحافت میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو صحافت کی حقیقت کو پہچانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ صحافت کے لئے ظاہر کو نہیں باطن کو بدلنا پڑتا ہے۔ پھر انہیںسے ایک گزارش کہ خدارا وہ موجودہ صحافت کی طرف جانے کی بجائے حقیقی معنوں میں صحافت کو فروغ دیں۔ اللہ ہمیں اپنے معاشرے کی اصلاح کرنے والا بنا دے، آمین