جنیوا: اقوامِ متحدہ کے ماتحت، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ اسکولوں میں تمام بچوں اور عملے کے کورونا ٹیسٹ کیے جائیں، چاہے ان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی علامات موجود ہوں یا نہ ہوں۔
گزشتہ روز یورپ میں عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر ہانز کلیوگ کا بیان یونیسکو اور یونیسیف کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کیا گیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بحال کرنے کےلیے ضروری ہے کہ اسکول کے عملے سے وابستہ ہر فرد اور وہاں پڑھنے والے ہر بچے کا کورونا ٹیسٹ کیا جائے؛ اس سے قطع نظر کہ ان میں کووِڈ 19 سے متاثر ہونے کی علامات موجود ہیں یا نہیں۔
واضح رہے کہ کووِڈ 19 کی عالمی وبا میں پچھلے سال عالمی ادارہ صحت نے تجویز کیا تھا کہ کسی بھی اسکول یا تعلیمی ادارے میں تمام افراد کی کورونا ٹیسٹنگ اس وقت کی جائے کہ جب وہاں اس وبا کے زیادہ کیسز سامنے آئیں۔ کلیوگ کا کہنا تھا کہ کووِڈ 19 وبا کی وجہ سے اسکولوں کی طویل بندش اور آن لائن تعلیم کے حوالے سے کئی طرح کے نفسیاتی اور جسمانی مسائل سامنے آئے ہیں، جن کا ازالہ صرف اور صرف اسکولوں کو باضابطہ طور پر کھول کر ہی ممکن ہے۔
تاہم، معمول کے مطابق اسکول کھولنے کے نتیجے میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ بھی ایک بار پھر شدت اختیار کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں کلیوگ نے تجویز کیا کہ ہر اسکول میں تمام افراد کی ’’پی سی آر‘‘ یا ’’ریپڈ اینٹی جن‘‘ ٹیسٹ ٹیسٹنگ کی جائے چاہے وہ اسکول میں پڑھنے والے بچے ہوں، وہاں پڑھانے والے اساتذہ ہوں یا پھر انتظامی امور سے وابستہ عملہ۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکول سے وابستہ ہر فرد کی کووِڈ 19 ٹیسٹنگ کا مقصد یہ یقین دہانی کرانا ہوگا کہ وہاں کوئی بھی کورونا وائرس سے متاثر نہیں؛ اور اگر ایسا ہو تو فوری طور پر مناسب کارروائی کی جائے۔
’’ہم اس وبا کو مزید اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ ہمارے بچوں کا مستقبل اور نشوونما کو برباد کرے،‘‘ کلیوگ نے اپنے بیان میں کہا۔
وہ اس سے پہلے بھی یورپی ممالک کو سماجی فاصلے اور دیگر متعلقہ مسائل کے باعث بچوں کی عمومی صحت اور تعلیم ادھوری چھوڑنے والے طالب علموں کی بڑی تعداد سے خبردار کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے یورپ میں اسکولوں کو معمول کے مطابق دوبارہ کھولنے کےلیے جو ’’صحیح اقدامات‘‘ تجویز کیے ہیں، ان میں سرِفہرست ہر فرد کی کووِڈ ٹیسٹنگ ہے۔
اگرچہ کلیوگ کی یہ تجویز صرف یورپی ممالک کےلیے ہے لیکن کورونا ٹیسٹنگ کے بہتر وسائل رکھنے والے دیگر ممالک بھی اس حکمتِ عملی سے مستفید ہو سکتے ہیں۔