موجودہ سائنسی دور میں جہاں ہر چیز کے موجود ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا حجم رکھتی ہو ساتھ ہی اپنی شکل میں نظر بھی آتی ہویہ کیسے ثابت کیا جائے گا کہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ روبرو ہوا؟اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کی اور اسی گفتگو کے نتیجہ میں قرآن حکیم میں موسیٰ علیہ السلام کا لقب کلیم اللہ آیا۔پھر اسی مخصوص سائنسی مفروضہ کی روشنی میں یہ کیسے ثابت کیا جائے گا کہ وہ عصا جو اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا وہ اژدہا بن گیا اور اور ساحروں کے سانپوں کو نگل گیا؟یہ بات بھی کیسے ثابت کی جائے گی کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو دریائے نیل پارکراتے ہوئے دوسری جانب جانے کا ارادہ رکھتے تھے ،اسی وقت اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے عصا کو اس پانی پر مارو اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، جیسے کہ دونوں جانب پہاڑ کھڑے ہوں ،اور درمیان میں راستہ بن گیا؟اور جب فرعون وقت اپنے لشکر کے ساتھ پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اترا تو اللہ تعالیٰ نے دریا کے پانی کو جو دوحصوں میں تقیسم ہو گیا تھا ،ملا دیا اور فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوگیا۔
یہ بات بھی کیسے ثابت کی جائے گی کہ جب موسٰی نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو اللہ نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو،چنانچہ اس میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کون سی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے؟آج ‘اہل علم ‘اور ‘روشن خیال “طبقے کا خیال ہے کہ خدا نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔دنیا خود بہ خود وجود میں آگئی،ایک طے شدہ نظام ہے جس کے تحت ہر چیز حرکت میں ہے،اور ایک خاص وقت میں وہ ختم ہو جاتی ہے، زندگی ایک بار حاصل ہوئی ہے اور اس کا انجام موت ہے،موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے،جنت اور دوزخ کے تذکرے مذہبی دکانیں چمکانے اور عقیدت میں جاہل عوام کو مبتلا کرکے وسائل زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ سب جاری ہے ،اور مذہب افیون ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔غالباً یہی بات فرعون وقت بھی کہتا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ اس کا انداز بدلا ہوا تھا۔وہ کہتا تھا کہ اے موسیٰ تمہارا خدا کہاں ہے؟وہ نظر کیوں نہیں آتا؟ موسیٰ علیہ السلام کہتے اے فرعون میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں،میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں۔ فرعون کہتا اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر۔اس پر موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدھابن گیا ۔اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔پھر فرعون نے سوال کیا اے موسیٰ تیرا خدا کون ہے؟موسٰی نے کہا میراخدا وہ ہے جو مو ت و حیات دیتا ہے،فرعون نے کہا کہ میں بھی لوگوں کو موت و حیات دیتا ہوں۔موسٰی نے کہا میرا خدا وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے، تو خدا ہے تو اسے مغرب سے نکال!اور جب موسٰی نے فرعون کو لاجواب کردیا تو وہ بولااے اہل دربار،میں تواپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ہامان،ذرا اینٹیں پکواکر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا،شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں،میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:”اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مِل سکے گی۔یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا،تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا،پھر اُس میں سے تمہیں بخیریت گزروادیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔یاد کرو، جب ہم نے موسیٰ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بُلایا،تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبُود بنا بیٹھے۔اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی،مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کردیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔ یاد کروٹھیک اُس وقت جب تم یہ ظلم کررہے تھے ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پاسکو۔یاد کرو جب موسیٰ یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اُس نے اپنی قوم سے کہا کہ “لوگو، تم نے بچھڑے کو معبُود بناکر اپنے اُوپر سخت ظلم کیا ہے،لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضو ر توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے”۔اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔
یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے،جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علاینہ خدا کو تم سے کلام کرتے نہ دیکھ لیں۔اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آلیا۔تم بے جان ہوکر گر چکے تھے،مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اُٹھایا، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جائو۔ہم نے تم پر اکابر کا سایہ کیا، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کیاور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اُنھیں کھائو، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا،وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اُوپر ظلم کیا۔پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ”یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے اس میں داخل ہو جائواس کی پیداوار جس طرح چاہومزے سے کھائومگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونااور کہتے جانا حِطّة حِطّة، ہم تمہاری خطائوں سے درگزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔”مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کرکچھ اور کر دیا۔آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پرآسمان سے عذاب نازل کیا۔یہ سزا تھی اُن نافرمانیوں کی،جو وہ کر رہے تھے”(البقرہ:٤٧تا٥٩)۔ان آیات میں بڑی نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والوں کے لیے۔ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام ،بنی اسرائیل اور فرعون سے متعلق قرآن میں درج شدہ آیات کو موضوع بحث بنایا جائے۔
قرآن حکیم میں تمام پیغمبروں کی نسبت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ زیادہ آیا ہے۔تیس سے زیادہ سورتوںمیں موسیٰ علیہ السلا م وفرعون کا تذکرہ ہے وہیںبنی اسرائیل کے واقعہ کی طرف سو مرتبہ سے زیادہ اشارہ ہے۔عبرانی بائبیل کے مطابق،موسیٰ ایک مصری شہزادے تھے جو بعد میں مذہبی رہنما اور شارع رہنما بن گئے تھے اورجنہیں توریت حاصل ہوئی ۔یہیودیت میں ان کو سب سے اہم پیغمبرتصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ان کو مسیحیت،اسلام اور بہائیت کے ساتھ ساتھ دوسرے ابراہیمی مذاہب میں بھی اہم پیغمبر سمجھا جاتا ہے۔دوسری جانب موجودہ دور میں جو سائنسی نظریات موجود ہیں ان میں غالب اکثریت اُن سائنسی دانوں کی ہے جو یہودیت اور عیسائیت کے علمبردار ہیں۔اوراِن میں اکثریت اُن کی ہے جو مذہبی عقائد کو سائنسی مفرضوں سے موازانہ کرتے وقت نظر انداز کرنے کے قائل ہیں۔پھر سوال یہ ہے کہ جس مذہب کے وہ پیروکار ہیں اس کی ان کی نظر میں کیا اہمیت ہے؟ان مذہبی عقائد کو وہ سائنسی بنیادوں پر کس طرح صحیح ثابت کرسکیں گے جو سائنس صرف حجم اور شکل پر یقین رکھتی ہے؟کیا وہ مذہب کو حقیقت میں تسلیم نہیں کرتے؟یا سائنس کو مذہب سے جدا سمجھتے ہیں؟سائنسی مفروضوں کی روشنی میں وہ خدا کو کیسے ثابت کرتے ہیں خصوصاً اس وقت جبکہ وہ حجم اور پیمانہ سے ہر چیز کو حقیقی تصور کرنے کے قائل ہوچکے ہیں؟کیا وہ جو کچھ کہ رہے ہیں اور کہتے آئے ہیں وہ حقیقت ہے یا وہ حد درجہ کنفیوژن کا شکار ہیں؟
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com