تین سو سال پہلے یورپ میں سائنسی انقلاب برپا ہوا تھا۔اس وقت ایک آدمی کی زندگی کی متوقع معیاد چالیس سال سے بھی کم تھی۔آج یہ معیاد پچھتّر برس سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔بے ہوشی کی دوائوں (انیستھیزیا)کی ایجاد سے قبل، زخمی تکلیف کے مارے جاں بحق ہو جاتے تھے لیکن آج فن جراحت اتنی ترقی پاچکی ہے کہ جسم کے خراب اعضاء نکال کر ان کی جگہ دوسرے لگائے جا سکتے ہیں۔یہاں تک کہ دل ،گردے ،جگر،آنکھیں وغیرہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل کیے جا سکتے ہیں۔طبی سائنس نے کس قدر آج ترقی کی ہے اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب کسی عزیز کی جان خطرے میں ہوتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ طب کس قدر بالغ ہو چکا ہے۔دوسری جانب سائنس نے اونٹوں اور گھوڑوں کا زمانہ ختم کر دیااور اب انسان خلا ء کی وسعتوں اور سمندرکی گہرائیوں میں بھی بہ آسانی سفرکرتا ہے۔دور دراز کی خبریں جو پہلے ہفتوں ،مہینوں اور سالوں میں پہنچتی تھیں،اب پلک جھپکتے مل جاتی ہیں۔گرچہ سائنس کے یہ کمالات شاندار ہیں لیکن اس کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انسان کے علم اور شعورکے درمیان مناسبت پیدا کی ہے،اسے یہ احساس دلایا ہے کہ فطرت نے بے شمار قوتیں زمین و آسمان کے درمیان فراہم کی ہیں اور وہ انہیں قابو میں کر سکتا ہے۔
دوسری جانب سائنس نے دنیا کو بے شمار مسائل سے دوچار بھی کیا ہے۔ماحول کی آلودگی اور نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ نے نئے مسائل قائم کیے کردیے ہیں ۔وہیں فکر و نظریہ میں ایک بے ہنگم فساد برپا کیا ہے۔اس کے باوجود اس نکتہ پر بہت بحث ہوئی ہے کہ آیا یہ خرابیاں سائنس کی دین ہیں یا یہ خرابیاں سائنس کے غلط استعمال سے پیدا ہوئی ہیں؟لیکن اصل تنازعہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سائنس کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس علم کی ماہیت اور تحقیق کا طریقہ کار بنیادی طور پر ناقص ہے اور ان سے فقط بگاڑ ہی پیدا ہوتا۔مشہور ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ البرٹ آئن اسٹائن کے مطابق “سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے”۔اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ گرچہ سائنس کا انحصار مفروضوں پر ہے اس کے باوجود تسلیم شدہ حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی صرف قیاسات ،تخمینوں اور مفرضوں سے بحث کی جاسکتی ہے جو خود سائنسی طور پر بھی ثابت نہیں ہیں۔
فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نام”بگ بینگ”یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ کے مطابق ابتدا میں یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary Nebulaبھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ کہکشانوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشانیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔
کائنات کی ابتدا اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔اور یہی بات قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”کیا وہ لوگ جنہوں نے(نبی کی بات ماننے سے)انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے،پھر ہم نے انہیں جدا کیا،اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔کیا وہ (ہماری اس خلاقی کو)نہیں مانتے؟”(الانبیائ:٣٠)۔اس قرآنی آیت اور بگ بینگ کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیںہے ۔دوسری جانب 1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا ہے کہ تمام کہکشانیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ کائنات پھیل رہی ہے اور یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔ ٹھیک یہی بات اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن حکیم میں فرمائی ہے،کہا کہ:”اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ بنایا ہے اور یقیناہم (اس کائنات کو )وسعت اور پھیلائو دیتے جا رہے ہیں”(الذریٰت:٤٧)۔تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ’ موسع ‘کے معنی طاقت و مقدرت رکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں اور وسیع کرنے والے کے بھی ۔دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ مسلسل اس میں توسیع کر رہے ہیں۔اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے؟اور یہی بات عصر حاضر کا مشہور ترین فلکی طبیعیات داں اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) نے اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں لکھا ہے کہ یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں صدی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔
گفتگو کے پس منظر میں جہاں یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی جا رہی ہے کہ انسان کی بقا،اس کی ترقی اور کامیابی کی راہیں حقیقی تعلیمات کی روشنی میں ہی حل کی جاسکتی ہیں۔وہیں یہ بات بھی خوب اچھی طرح واضح رہنی چاہیے کہ حقیقی علم سوائے وحی الٰہی کے کچھ اور نہیں ہے،گرچہ وہ کسی بھی زمانے اور کسی بھی مقام پر نازل ہوا ہو۔لیکن آج کے زمانے میں جو حقیقی علم ہمارے پاس موجود ہے وہ دراصل قرآن حکیم اور محمد صلی و علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں،کیونکہ یہی تعلیمات آج پوری طرح سے محفوظ ہیں۔پھر جن مفروضوں کی نفی وحی الٰہی کرتی ہے وہی علم ِحقیقی ،سائنسی علوم کے اس حصہ کی توثیق بھی کرتی ہے جو صحیح ہیں۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جہاں اور جس مقام پر ،سائنس ،فکری و نظریاتی لحاظ سے غلط رائے قائم کرتی ہے،اُن تمام مقامات پر سائنس دانوں کواور تحقیق میں مصروف سائنس کے طالب علموں کو نظرثانی کی ضرورت ہے۔اور چونکہ انسان چونکہ فطرت پر پیدا ہوا ہے لہذا اسے ترقی اور کامیابی بھی فطری طریقوں سے ہی دلائی جا سکتی ہے۔برخلاف اس کے ترقی و کامیابی کا معیار غیر فطری نہیں ہوسکتا۔قرآن حکیم میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو مختلف انبیاء کرام اور ان کی قوموں سے وابستہ ہیں۔
وہیں دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے انسان کو حریت فکر و عمل سے نوازا ہے ساتھ ہی صراط مستقیم پر چلنے کے لیے ٹھیک ٹھیک راہیں بھی متعین کی ہیں ۔اس کے باوجود زماں و مکاں کی قیود سے باہر فی زمانہ جباروں اور قہاروں نے انسانوں کو غلام بنانے اور ان کی حریت فکر و عمل کو سلب کرنے کی کوشش کی ہے۔انبیا ء کرام کے تسلسل کے ساتھ تذکرے میں موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ ہمارے لیے غور و فکر کے بے شمار مواقع فراہم کرتا ہے۔اس پر آئندہ ہفتہ کچھ لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔فی الوقت یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فرعون دراصل اُس وقت کے بادشاہوں کا لقب تھا ،جو شخص بھی بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتا تھا۔ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کرنے والے حکمراں کا نام رعمسس دوم تھا۔بائیبل کے بیان کے مطابق اُس نے بنی اسرائیل سے بیگار کے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کا نام رعمسس رکھا گیا تھا۔جدید تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اور قطرکے اُس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔۔۔(جاری)