تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال عکاس انٹرنیشنل ادبی کتابی سلسلے کا پچیس واں ایڈیشن عباس خان نمبر اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے جو کہ ایک عمدہ کا وش ہے۔عکاس انٹرنیشنل کسی علمی وادبی دستاویز سے کم نہیں ہے۔ 232 صفحات پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب ہے جس کا ہر ورق عباس خان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتا نظر آتا ہے۔عباس خان کی کتابوں کے سرورق کے ساتھ کلرفل ٹائیٹل،بہترین کاغذکے ساتھ علم و ادب سے لگائو رکھنے والے احباب کے لئے ایک لاجواب اور بے مثال تحفہ ہے۔
جناب ارشد خالد صاحب کی ادب دوستی کو سلام پیش کرتے ہوئے ،انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ ارشد خالد صاحب کی علمی وادبی خدمات پرجو کہ عرصہ دراز سے مسلسل عکاس انٹرنیشنل کی ہر ممکن اشاعت کو یقینی بناتے ہیں۔ کسی بھی شاعر ، ادیب ، افسانہ نگار کے فن و شخصیت کے حوالے سے ایک بہت خوبصورت کتاب کو شائع کرکے انہیں ٹربیوٹ پیش کرتے ہیں،ان کے حوالے سے شائع ہونے والے نامور ادبی شخصیات کے مضامین ،انٹرویوز،خطوط اورتحریریں شامل کرکے ایک یادگار بنا دیتے ہیں۔
عباس خان کا نام بطور افسانہ نگار 1966ء میں منظر عام پر آیا جبکہ 12 سال بعد ان کا پہلا افسانوی مجموعہ شائع ہوگیا ۔اب تک ان کے افسانوں ،افسانچوں،کالموں ،ناولوں کی 16کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔علمی وادبی حوالے سے جس طرح راقم الحروف لاعلم تھا عکاس کا مطالعہ کرنے سے پہلے، اسی طرح آپ میں سے بھی اکثریت بھی ان سے نا آشنا ہوگی ۔کیونکہ پاکستا ن کے ادبی اور علمی حلقوں میںکبھی عباس خان کا نام سننے میں نہیں آیا اور نا ہی ان کی کوئی کتاب زیر مطالعہ آئی جس کی وجہ سے انہیں جاننے کا شرف حاصل ہوتا، عباس خان کا علم و ادب کی دنیا میں ایک بلند مقام ہے جس کی پذیرائی انہیں ہمسایہ ملک بھارت میں بھی دی جارہی ہے۔وہاں کے رسائل و میگزین میں ان کے افسانے ، کہانیاں، مضامین تواتر سے شائع ہو رہے ہیں۔
عباس خان تحصیل و ضلع بھکر کے گائوں گجہ میں 15 دسمبر 1943 ء میں پیدا ہوئے ۔پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ایم ۔اے (سیاسیات) اور ایل ایل بی کیا۔سرکاری ملازمت، عدلیہ و احتساب کی سبکدوشی کے بعد آج کل لکھنے کے علاوہ زمینداری جیسے مشکل شعبے سے منسلک ہیں۔عباس خان کی شریک حیات ایک بیٹا محمد مرتضی عباس خان اور ایک بیٹی قدسیہ عباس چھوڑ کر اس وقت ابدی نیند سوچکی ہیں۔تاحال انہوں نے زندگی کے باقی ماندہ شب وروز پورے کرنے کے لئے اولیا اللہ کے شہر ملتان شریف میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
Akkas Book
عباس خان کی تصانیف کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے ۔ناول زخم گواہ ہیںسب سے پہلے 1984ء میں ہندستان میںبھی شائع ہوا، پھر 1988ء میں بھی دوبارہ اشاعت ہوئی۔دوسرا ناول تو اور تو 2003ء میں اور تیسراناول میں اور امرائوجان ادا 2005ء میں شائع ہواتھا۔افسانوں کے 6مجموعے دھرتی بنام آکاش 1978ئ۔تنسیخ انسان 1981ئ۔قلم ،کرسی اورو ردی 1987ئ۔اس عدالت میں 1992ء جسم کا جوہڑ1999ئ۔آٹھ آنے کی پیاس 2013ء میں شائع ہوئے جبکہ افسانچوں کے چار مجموعے ریزہ ریزہ کائنات 1992 ئ۔پل پل 1996ئ۔ستاروں کی بستیاں 2009ئ۔خواہشوں کی خانقاہ 2015ء میں منظر عام پر آئے۔رام لعل کے خطوط بنام عباس خان ،خطوط پر مشتمل کتاب سلطنت دل سے 2012ء میں شائع ہوئی ۔ایک کتاب ان کے فکرو فلسفہ کے حوالے سے سچ کے نام سے 2014ء میںاشاعت پذیر ہوئی جسے خاصی پذیرائی ملی جبکہ ان کے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالموں کا پہلامجموعہ دن میں چراغ کے نام سے 2002 میں شائع ہوا۔ اور ان کے کالموں کے اس مجموعے کوایس اے جے شیرازی نے انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے (Light.within)کے عنوان سے شائع کیا۔ ان کی ابھی چند کتابیں زیر طبع ہیں ۔جن میں (دراز قد بونے)چند علمی وادبی شخصیات ایک روزنامے کے بارے میں شامل ہیں۔
عباس خان کی شخصیت ،افسانہ نگاری ،ناول نگاری ،ان کی اردوادب کے حوالے سے نادر نگارشات پر علمی و ادبی نامور شخصیات نے اظہارخیال کیا ان میں قدرت اللہ شہاب ،جسٹس جاوید اقبال ،سید ظفر معین الدین بلے،ڈاکٹر انور سدید، آغا امیر حسین ، رفیق جعفر ،غلام حسین بلوچ ،ڈاکٹر پرویز شہر یار ،حیدرقریشی ،عامر سہیل ،تنویر صہبائی ،محمد اشرف کمال ،دیپک بدکی ،نسیم شاہد ،نذیر فتح پوری ،معین الدین عثمانی ،ڈاکٹر محبوب راہی ،رفیق شاہین،نازیہ عباسی ،ڈاکٹر مجیراحمد ،سلطان اختر،سلیم انصاری سمیت دیگر شامل ہیں۔
عکاس انٹرنیشنل کے عباس خان نمبر کو پڑھ کر جہاں تک راقم الحروف نے ان کی تحریروں اور ان پر لکھے مضامین کو پڑھا ہے، دیکھا ہے، سمجھا ہے، پرکھا ہے کہ عباس خان زندگی کی تلخ حقیقتوں کو نہایت ہی خوش اسلوبی سے بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔وہ کہانی کو بیان کرتے ہوئے ،مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے سادہ ،شگفتہ زبان میں بے ساختہ ہوکر سناتے ہیں اور ہمیشہ کہانی کے کرداروں کو زندہ رکھتے ہیں ۔ عباس خان ایک کہنہ مشق سینئر ترین افسانہ نگار ہیں۔ان کی کہانیوں میںانسانی رشتے،اخلاق،ادب و تہذیب اور انسانیت کا رنگ ہی جھلکتا نظر آتاہے۔ شروع سے لیکر آخر تک کہانی میں ہر کرداردلچسپ اور تجسس برقرار رکھتاہے جس سے پڑھنے والے کو بوریت کا بالکل بھی احساس نہیں ہوتا بلکہ کہانی میں ہی کہیں کھو کر رہ جاتا ہے۔
طارق اسمعیل ساگرکہتے ہیں کہ عباس خان کا کمال یہ ہے کہ اس نے کہانی کوتجربات کی بھینٹ نہیں چڑھایا ،وہ روشن دماغ ہے اپنی بات روایتی انداز سے بغیر کسی ابہام کے کہتا ہے تجریدیت کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتااسے یہ اعزاز حاصل رہے گا کہ اس نے کہانی کو زندہ رکھا ہے۔ بے مقصد تفصیل نگاری نہیں کی ،زیب داستان کے لئے کسی نسوانی کردار کا سہارا نہیں لیتے ،کہانی کی دلکشی بڑھانے کے لئے اضافی منظر نگاری نہیں کرتے اور سنجیدہ مفکر کی طرح زندگی کی تلخ سچائیوں کو ننگا کرتے چلے جاتے ہیںان کا اسلوب مثالی ہے وہ فکری اور عملی دونوں اعتبار سے اقبال کے الفاظ میں درویش خدامست ہیں۔
فرزند اقبال جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال نے عباس خان کو عباس خان چہارم کا نام دے رکھا ہے ۔وہ اس طرح کہ ادب کی دنیا میں اب تک تین عباس گزرے ہیں جن میں علی عباس حسینی، غلام عباس اور خواجہ احمد عباس شامل ہیں اس وقت ادب کی دنیا میں عباس خان ایک معتبر نام ہے یوں ہم اس کو عباس چہارم کہہ سکتے ہیں۔آخر میں ایک بار پھر آتے ہیں عکاس انٹرنیشنل کے تخلیق کار جناب ارشد خالدکی جانب جن کی شبانہ روزکی انتھک محنت کی وجہ سے ہی عکاس انٹرنیشنل جیسی انمول تصنیف ہماری دسترس میں پہنچتی ہے۔عکاس انٹرنیشنل کسی بھی عالمی ادبی جریدے سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ہم عکاس انٹرنیشنل کی مسلسل کامیاب اشاعت پر انتظامیہ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور آگے بھی ان کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا گو ہیں ۔تحریر کا اختتام عباس خان کے حاصل زندگی کے ان الفاظ پر کرتے ہیں کہ حاصل عمرم سہ حرف است وبس۔خام بودم ،پختہ شدم، سوختم(زندگی کا حاصل صرف تین حرف ہیں۔ میں خام تھا، پختہ ہوا اور پھر جل کر راکھ ہو گیا۔