سائنسدانوں نے بجلی کے متبادل ذرائع تلاش کرتے ہوئے درختوں، جراثیموں اور ریڈیائی لہروں سے بجلی بنانے پر کام شروع کر دیا۔
ریڈیائی لہروں سے بجلی ہمارے ارد گرد ریڈیائی لہروں کا جال ہے، جس میں بے شمار سگنل ہیں، جیسے وائی فائی سگنل، ریڈیو سگنل وغیرہ۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کو دوبارہ بجلی میں بدلا جا سکتا ہے۔ دنیا کی بہت سی کمپنیاں ایسے سمارٹ فون بنانے میں مصروف ہیں کہ آپ کا موبائل اپنی چارجنگ ٹائمنگ خود بڑھا سکے۔ اس ضمن میں تجرباتی طور پر کامیابی بھی ملی ہے۔ول زیل امریکی ریاست اوہائیو کے دارالحکومت میں قائم نکولائیز کمپنی کے سی ای او ہیں۔ ان کا کہنا ہے آپ بار بار فون چارجنگ پر نہیں لگانا چاہیں گے، ان کی کمپنی فون میں مواصلاتی انٹینا لگا رہی ہے تاکہ ان ریڈیائی سگنل کو پکڑا جائے، جو مواصلات میں ضروری نہیں اور انہیں برقی چارج میں بدل کر موبائل بیٹری کو سہارا دیا جائے۔
جراثیموں سے بجلی پنسلوانیا سٹیٹ اور ٹسنگوا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں نمکین پانی کو صاف کر کے پینے لائق بنانے اور بجلی پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا ہے، جو مائیکروبل جراثیمی ایندھنی خلیے کو استعمال میں لا کر کیا جائے گا۔ سائنسدانوں کا دریافت کردہ جراثیم قدرتی طور پر اپنے خلیے کے اندر الیکٹرون اور پروٹون پیدا کرکے خارج کرتا ہے۔ بعدازاں دیگر جراثیم ان کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں اور دوسرے مرکب بناتے ہیں،یتھین ،ہائیڈروجن وغیرہ ،جنہیں بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔اس کے علاوہ امریکا کی مشہور سٹانفورڈ یونیورسٹی میں(ایکسلو الیکٹروجن) نامی جراثیم سے بجلی بنانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ مناسب توانائی کے لیے بڑی بیٹری درکار ہوگی۔ کیا خبر مستقبل میں چھوٹی ڈیوائیسوں کے لیے بائیو بیٹری دستیاب ہو۔
درختوں سے بجلی آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ درختوں سے بجلی بنانے کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ ایسی متعدد ڈیوائیسیں متعارف کروائی جا چکی ہیں۔ اس سلسلے میں (ای کایا) موبائل فون چارجر قابل ذکر ہے۔ امید ہے چلی کے دو سائنسدانوں کی یہ کاوش مستقبل میں مزید ترقی کرے گی اس قسم کی دیگر ڈیوائیسیں اس لیے موثر ثابت نہ ہو سکیں کیونکہ ان کے لیے کافی تعداد میں پودے یا درخت درکار تھے مگر اس کے لیے ایک ہی پودا ضروری ہے کمال بات یہ کہ اس طرح پودے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتااسے استعمال کرنے کا طریقہ نہایت آسان ہے بس ڈیوائیس کا ان پٹ پینل درخت کی جڑ کے قریب زمین میں دبا دیا جاتا ہے اور آؤٹ پٹ پینل پر بجلی حاصل ہوتی ہے جو ۵ وولٹ ۶۰۰ ملی ایمپیر ہوتی ہے۔
یعنی ایک موبائل تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں چارج ہو جاتا ہے لہذا آنے والے وقتوں میں ہمیں چارجنگ کے لیے درختوں کی طرف دوڑ لگانی پڑے گی۔ بظاہر مندرجہ بالا باتیں سائینس فکشن معلوم ہوتی ہیں مگر یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گاکہ ان سب چیزوں کا وجود کم ازکم تجربہ گاہوں کی حد تک تو ممکن ہے البتہ یہ ناقابل یقین ایجادات عام عوام کی دسترس میں کب آئینگی اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔