کرۂ ارض پر پائے جانے والے بنیادی مرکبات میں سے ایک ہے۔ سطح ارض کا تین چوتھائی پانی سے ڈھکا ہوا ہے۔ انسانی جسم بھی ساٹھ فی صد کے لگ بھگ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔
حیات کے لیے کلیدی اہمیت رکھنے والا یہ مرکب منفرد خواص کا حامل ہے اور سائنس داں اس پر مسلسل تحقیق کررہے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے پانی کی نئی حالت دریافت کی ہے۔ سائنس داں 40 سے 60 ڈگری سیلسیئس درجۂ حرارت پر پانی کے طبعی خواص پر تحقیق کررہے تھے۔ انھیں پتا چلا کہ اس درجۂ حرارت پر پانی، مایع کی دو حالتوں کے درمیان ڈولنے لگتا ہے۔
عام طور پر ہم مادہ کی تین حالتوں؛ ٹھوس، مایع اور گیس سے واقف ہیں۔ مخصوص حالات میں پلازما جیسی حالت بھی پائی جاسکتی ہے۔ پانی کئی صورتوں میں دوسرے مرکبات سے مختلف ہے۔ پارے کے بعد پانی کا سطحی تناؤ تمام مائعات میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کا شمار ان معلوم عناصر میں بھی ہوتا ہے جس کی ٹھوس حالت، اس کی مایع حالت کے اوپر تیر سکتی ہے۔
پانی کو اس کی ایک اور خاصیت دوسری تمام اشیاء سے ممتاز کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ پانی ٹھنڈا کرنے پر بجائے سکڑنے کے پھیلتا ہے۔ پانی کا نقطۂ اُبال بھی سائنس دانوں کی نظر میں منفرد ہے۔ دوسرے ہائیڈرائڈ جیسے ہائیڈروجن ٹیلورائڈ اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کا نقطۂ کھولاؤ مالیکیولی جسامت میں کمی کے ساتھ ساتھ گرتا جاتا ہے۔ تاہم پانی کے مالیکیول کا وزن انتہائی کم ہونے کے باوجود اس کا نقطۂ کھولاؤ بہت زیادہ ہے۔
اب ماہرینِ طبیعیات نے اس کی ایک نئی خاصیت دریافت کی ہے۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی کی لارا میسٹرو کی سربراہی میں ماہرین طبیعیات پر مشتمل ٹیم نے پانی کی اس خصوصیت کا عملی مظاہرہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 40 سے 60 ڈگری سیلسیئس درجۂ حرارت کے درمیان پانی اپنی حالت بدل سکتا ہے۔
اس خاصیت تک پہنچنے کے لیے سائنس دانوں کی ٹیم نے پانی کے مخصوص خواص جیسے حر ایصالیت(Thermal conductivity)، اشاریہ انعطاف، ایصالیت، سطحی تناؤ، اور برق گزاری مستقل کے ساتھ اس بات پر غور کیا کہ صفر سے سو درجے کے درمیان درجۂ حرارت کی تبدیلیوں پر درج بالا خصوصیات کیا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
سائنس دانوں نے دیکھا کہ 40 ڈگری سیلسیئس پر تغیرات رونما ہونے لگے، اور 60 ڈگری تک پہنچتے پہنچتے یہ تمام خصوصیات بدل گئیں۔ اس حد کے درمیان ہر خصوصیت نے ایک مختلف ’ عبوری درجۂ حرارت‘ حاصل کرلیا تھا۔ محققین کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ پانی نے مایع سے الگ ایک مختلف حالت اختیار کر لی تھی۔
سائنس دانوں نے یہ عبوری درجۂ حرارت نوٹ کر لیے جو کچھ اس طرح تھے: حرِ ایصالیت کے لیے 64 ڈگری سیلسیئس، انعطاف اشاریہ کے لیے 50 ڈگری سیلسیئس، ایصالیت کے لیے 53 اور سطحی تناؤ کے لیے 57 ڈگری سیلسیئس۔ عبوری درجۂ حرارت کی اس فہرست سے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا،’’ سو تا صفر ڈگری سیلسیئس کے درمیان پانی مایع حالت میں اپنے بیش تر خواص کے لیے عبوری درجۂ حرارت پیش کرتا ہے جو 50 ڈگری سیلسیئس کے لگ بھگ ہوتا ہے۔‘‘
اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن اس حقیقت کا تعلق کہ مخصوص درجۂ حرارت پر پانی مایع کی دو یکسر مختلف حالتوں کے درمیان ڈولتا ہے، پانی کی عمومی غیرمعمولی خصوصیات سے جوڑا جا سکتا ہے۔