ایڈنبرگ (جیوڈیسک) آئندہ جمعرات 18 سمتبر کو سکاٹ لینڈ کے ووٹرز ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ برطانیہ کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں یا الگ ہونا پسند کرتے ہیں۔
خودمختاری کی حامی سکاٹش نیشنل پارٹی 2011 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی اور واضح برتری کے باعث وہ آج اس قابل ہے کہ وہ یہ ریفرنڈم کروا سکے۔ منسٹر ایلیکس سیمنڈ کی قیادت میں سکاٹش حکومت کا موقف ہے کہ 300 سال سے جاری یہ اتحاد اب بے مقصد ہے۔
اور آزاد ہونے کے بعد سکاٹ لینڈ اپنی تیل کی دولت کی بدولت دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ حالیہ مہینوں میں دو بڑے مسائل کرنسی اور تیل کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ جہاں تک تیل کی بات ہے تو شمالی سمندر میں تیل اور گیس کے ذخائر سکاٹش حکومت کی جانب سے آزادی کے مطالبے کی بڑی وجہ ہیں۔
ایلیکس سیمنڈ کا کہنا ہے کہ تیل کے زرِ مبادلہ کی سالانہ ایک ارب پاونڈ بچت کرنے سے ایک نسل کے بعد یہی ذخیرہ 30 ارب پاونڈ کا ہو جائے گا۔ دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ شمالی سمندر ہمیشہ سے برطانوی ترقی کا ذریعہ رہے ہیں لیکن اب یہاں سے تیل اور گیس کا حصول پہلے سے مشکل ہو گیا ہے۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ صنعت متحدہ برطانیہ کے زیرِ انتظام رہے۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں میں ایک ایسی چیز کی امید جگا رہے ہیں جو ختم ہونے والی ہے۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق 51 فیصد لوگ آزادی کی حمایت کرنے والے ہیں جبکہ 49 فیصد لوگوں کا ارادہ نہ کہنے کا ہے۔
سکاٹ لینڈ میں مقیم 16 یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا براہ راست حق حاصل ہو گا۔ اس کے لیے ان کا رجسٹر ہونا ضروری ہے۔ ریفرنڈم کے اگلے روز اگر جواب ہاں میں ہوا تو سکاٹش حکومت جشن منائے گی اور اس کے بعد وہ باقی ماندہ برطانیہ سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرے گی۔ لیکن اگر ریفرنڈم میں لوگوں نے زیادہ تعداد میں نہیں کے حق میں ووٹ دیا تو برطانوی حکومت کی جانب سے بڑے جشن کا امکان ہے۔ اس کے بعد وہ سکاٹش پارلیمان کو مزید اختیار دینے کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرے گی۔