سکاٹ لینڈ (جیوڈیسک) برطانیہ سے علیحدگی حاصل کرنے یا ساتھ رہنے کے فیصلے پر ریفرینڈم شروع ہو گیا ہے۔ ریفرینڈم میں ووٹروں سے سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا سکاٹ لینڈ کو آزاد ملک ہونا چاہیے اور اس پر ووٹرز ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں جواب دیں گے۔
اس ریفرینڈم میں 42 لاکھ 85 ہزار 323 رجسٹرڈ ووٹر حاصل لے رہے ہیں اور ٹرن آؤٹ زیادہ رہنے کی توقع ہے۔ ملک بھر میں پولنگ 2608 پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈال سکیں گے اور پولنگ مقامی وقت کے مطابق رات دس بجے تک جاری رہی گی اور نتائج جمعے کی صبح تک متوقع ہیں۔
اس سے پہلے دو تازہ ترین سرویز میں کہا گیا ہے کہ آزادی کے مخالفین کو معمولی سی برتری حاصل ہے۔ سکاٹ لینڈ کی آزادی کے حمایتیوں نے گلاسگو سینٹر میں ایک بڑا اجتماع کیا اور لوگوں کو ’ہاں‘ کا ووٹ ڈالنے کا کہا۔ ان کے قریب ہی آزادی کے مخالفین نے اجتماع کیا اور کہا کہ برطانیہ سے آزادی کے حق میں دلائل کمزور ہیں۔
برطانوی اخبارات دی سن اور دی ٹائمز کے لیے کیے گئے سروے کے مطابق 48 فیصد لوگ آزادی کے حق میں، جبکہ 52 فیصد افراد اس کے مخالف ہیں۔ تاہم اس سروے میں چھ فیصد ایسے افراد ہیں جنھوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ڈیلی ریکارڈ کے لیے کیے جانے والے ایک اور سروے کے مطابق آزادی کے مخالفین 53 فیصد جبکہ حق میں 47 فیصد افراد ہیں جبکہ نو فیصد ایسے افراد ہیں جنھوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا۔
مہم کے آخری روز ایلیکس سیمنڈ نے سکاٹ لینڈ کے لوگوں کے نام ایک خط میں کہا کہ اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ان کے ہاتھوں میں ہے۔ یاد رہے کہ منگل کو برطانیہ کی تین مرکزی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے ایک عہد پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر سکاٹ لینڈ کے لوگ برطانیہ سے علیحدہ نہ ہونے کا فیصلہ کریں تو سکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات دیے جائیں گے۔
یہ عہد برطانوی اخبار ڈیلی ریکارڈ میں شائع ہوا جس پر ڈیوڈ کیمرون، ایڈ ملی بینڈ اور نک کلیگ کے دستخط ہیں۔ واضح رہے کہ سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات صرف اسی صورت میں مل سکتے ہیں اگر برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ اس عہد کے تین حصے ہیں۔
پہلے حصے میں وعدہ کیا گیا ہے کہ سکاٹ لینڈ کی پارلیمان کو ’وسیع اختیارات‘ ایک ’عمل کے ذریعے اور طے شدہ وقت‘ پر دیے جائیں گے۔ اس عمل اور ٹائم ٹیبل کا فیصلہ تینوں جماعتوں کے سربراہان کریں گے۔ دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ تینوں سربراہان اس بات پر متفق ہیں کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ہی برطانیہ اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ سب کے لیے مواقع اور سکیورٹی فراہم کی جائے۔
11 ستمبر 1997 یعنی آج سے ٹھیک 17 برس قبل سکاٹ لینڈ کے عوام نے اختیارات کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے نتیجے میں تین سو سال کے طویل عرصے کے بعد سکاٹش پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ تیسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ ہیلتھ سروس این ایچ ایس کی فنڈنگ کے بارے میں حتمی فیصلہ سکاٹ لینڈ کی حکومت ہی کا ہو گا۔
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور قائد حزب اختلاف ایڈ ملی بینڈ سمیت برطانیہ کی تمام سیاسی قیادت اس کوشش میں ہے کہ سکاٹ لینڈ کے عوام کو قائل کر سکیں کہ وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار نہ کریں۔ برطانوی شاہی محل بکنگم پیلس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سکاٹ لینڈ کے برطانیہ کے ساتھ رہنے یا علیحدگی کا فیصلہ ’سکاٹ لینڈ کے عوام کے ہاتھ‘ میں ہے اور ملکہ برطانیہ ریفرینڈم پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتیں۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سکاٹ لینڈ علیحدگی کا فیصلہ کرتا ہے تو برطانیہ کی شمالی سرحد کے پار ملکہ کے کردار پر کیا اثر پڑے گا۔ یورپ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سکاٹ لینڈ کی علیحدگی سے یورپ میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں یا خواہشوں میں شدت آئے گی۔