چیخ

Woman Abused

Woman Abused

تحریر : وقارانساء
چیخ ! درد کی وہ آواز جو تکلیف کے لمحات میں منہ سے بے اختیار نکلتی ہے تکلیف اور دکھ کیبڑھ جانے پر جب صبر دامن چھوٹتا ہے تو دلفگارکی آواز بلند ہوتی ہے روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور سانحات کے نتیجے میں یہ آوازیں ھماری سماعت سے ٹکراتی بھی رہتی ہیں اور ان کی بازگشت بھی گونجتی رہتی ہے لیکن دل پر اثر نہیں کرتیکسی آزمائش میں کسی دکھ اور تکلیف میں مبتلا انسان کی چیخ ضبط کا یارا نہ رہنے پر بلند ہوتی ہے یہ وہ پکار ہے جس کو بے بس اور بیکس ومجبور انسان کسی سے مدد کا طالب ہو کر اور ھمدردی کے دو بول کی خاطربلند کرتا ہے لیکن بے حسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ لوگ ان چیخوں کو سن کر اپنے سامنے زیادتی کے مناظر دیکھ کر خاموشی سے گزر جاتے ہیں – ہاں اب کرتے ہیں تو یہ کہ بنا کچھ کہے دور کھڑے ہو کر ویڈیو بنا لیں یا وہاں مجمہ لگا لیں اور ایک دو شیطان صفت انسان ان کے سامنے انسانیت سوز سلوک کر رہے ہوتے ہیں اور بڑے سے بڑا ہجوم بت بنا کھڑا رہ جاتا ہے اتنے لوگوں کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ چند لوگوں کو روک سکیں خاموش تماشائی بن کر تماشہ دیکھنے کے بعد رخصت ہو جاتا ہے۔

ھمارے معاشرے میں اغوا اور عصمت دری کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں – میڈیا ان کو دکھاتا بھی ہے روزانہ دلخراش واقعات اور خبریں بھی دیکھتے ہیں لیکن اس جرم کا سدباب نہیں کیا جا سکا -ہاں سائنس نے ترقی کر لی ہے اور یہی ترقی کبھی تووڈیو کی صورت میں منظر عام پر آجاتی ہے اور کبھی خواتین اور بچیوں کو بلیک میل کرنے میں اغوا اور جنسی تشدد اور زیادتیوں نے مردوزن کی تفریق بھی ختم کر دی ہے۔

مگر کیا کیا جائے!! احساسات اور جذبات سے عاری اور انسانیت سے کوسوں دور ان حیوانوں کا جو کسی عورت کسی بچی کو درندگی کا نشانہ بناتے ہیں کسی غریب مزارعے کی بیٹی ہو یا خانہ بدوش بھکارن مال مفت سمجھ کر زیادتی کرتے ہیں۔

ایک وڈیو کسی نے شیئر کی جس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا اس ویڈیو میں ایک غریب عورت جو بظاہر خانہ بدوش لگ رہی تھی اس کے ہمراہ اس کی جوان بیٹی بھی ہے اور ایک چھوٹا بیٹا بھی وہاں سیدو تین اوباش نوجوانوں کا گزر ہوتا ہے اور وہ ان کو دیکھ کرگاڑی سے نیچے اترتے ہیں-وہ اس لڑکی کو اغوا کر لینے کے ارادے سے اس لڑکی کی طرف بڑھتے ہیں اس کی ماں دیکھ کر بچی کے دفاع میں اس کیسامنے کھڑی ہو جاتی ہے اور اپنی زبان میں ان لوگوں کو برا بھلا کہتی ہے اور اپنی بیٹی بچانا چاہتی ہے اور اپنی بساط بھر ان کو روکنے کی کوشش کرتی ہے جس پر وہ دھکا دیکر اسے ہٹاتے ہیں اور لڑکی کو چوٹی سے پکڑ کر گاڑی کی طرف لے جاتے ہیں ماں جھپٹتی ہے لڑکی کو چھڑا نہیں سکتی پیچھے چیختے ہوئے بھاگتی ہے اوران اوباشوں میں سے ایک لڑکے کو پکڑ لیتی ہے لیکن وہ بے غیرت انسان لاٹھی سے اسے بری طرح پیٹ ڈالتا ہے وہ اٹھ کر پھر بھاگتی ہے اب دو لڑکے لاتوں اور گھونسوں سے اسے مارتے ہیں اور تیسرا گاڑی کی طرف بڑھ رہا ہے اس عورت کے بچے کی چیخ بلند ہوتی ہے- مت مارو میری ماں کو مت مارو -وہ بھی ماں کے پیچھے چیختا ہوا بھا گتا ہے – چھوڑدو میری ماں کو وہ روتا ہوا التجا کرتا ہے لیکن ماں کے ھاتھ کچھ نہیں آتا اور اس کے سامنے اس کی جوان بیٹی کو گاڑی میں بٹھا کروہ لیجاتے ہیں۔

فلسطین کشمیر برما میں مسلم عورتوں کی عزت غیر مسلموں کے ھاتھوں برباد ہو رہی ہے تو اپنے ملک میں اسی کے باشندے ان ماں بہنوں اور بیٹیوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں-اور کھلے بندوں یہ جرم ہو رہا ہے۔

کیا ان مظلوموں کی چیخیں کسی کا دل نہیں چیرتیں ؟ ارباب اختیار کے کلیجے نہیں دہلتے اور ان کے پتھر دل خون کے آنسو نہیں روتے ؟ کیوں ملک میں کوئی قانون نہیں اور نہ ہی قانون کا نفاذ کروانے والے ؟ انصاف اور عدل کی کرسیوں پر متمکن لوگ اندھے بہرے اور گونگے ہیں۔

جنہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا کب یہاں غریب کی عزت محفوظ ہو گی ؟ کب خواتین اور معصوم بچیاں ان بھیڑیوں کی درندگی کے خوف سے آزاد ہوں گی ؟ اگریہ لوگ انسانیت کی حدود سے نکل گئے ہیں تو انسانوں کی بستیوں میں بھی رہنے کا انہیں کوئی حق نہیں اس قبیح فعل کے مرتکب لوگوں کو سر عام پھا نسی پر لٹکایا جائے تو شائد اس گھنانے فعل کے ارتکاب میں کمی آئےکب تک اس ملک میں کرسی اور اقتدار کی جنگ ہو گی ؟اور غریبوں اور مجبوروں کی عزت کا جنازہ نکلتا رہے گا جو ان سب کے لئے ثانوی مسئلہ ہے۔

پسماندہ علاقوں میں ان جرائم کی بہتات ہے ان بستیوں کا رخ سیاستدان ووٹ لینے کے لئے ہی کرتے ہیں کچھ لالچ اور پیسہ لگا کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں اور بعد میں ان غریبوں کی خبر نہیں لیتے اگر ان کے عہدے انسانوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو ان کو بھی حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ صرف اپنی سیاست کو چمکانے وہاں جائیں ان کے مردہ ضمیر بھی نہیں جاگتے اگر اپنے علاقوں میں غریب کی داد رسی نہ کر سکیں ان کو تحفط نہ دے سکیں اپنے فرائض کی بجا آوری نہ کر سکیں تو صرف کرسی کے حصول کے لئے انہیں زینہ نہ بنائیں لا تعداد ایسے واقعات کا ہونا معمول بن گیا ہے لیکن یہ منظر بھلائے نہیں بھول رہا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی بچیاں درندوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھتی ہیں یا تا حیات ظلم واستبداد کا شکار ہوتی رہتی ہیں مار دی جاتی ہیں یا آگے بیچ دی جاتی ہیں روز نت نئی ظلم کی داستان جنم لیتی ہے واپسی کا راستہ تو کبھی نہیں ملتا میرے الفاظ شائد میرے کرب کو بیان کرنے کے لئے ناکافی ہیں-وہ درد ان الفاظ میں سمویا نہیں جا سکتا لیکن امید ہے ہر درد مند دل محسوس ضرور کرے گا اس ظلم کا کوئی تدارک ہو آئیے مل کر اس آواز کو بلند کریں تاکہ کسی کی مردہ غیرت جاگ جائے۔

تحریر : وقارانساء