تحریر: ممتاز امیر رانجھا میری طرح پوری دنیا میں فیس بک استعمال کرنے والے کئی دن سے نیند پوری نہیں کر سکے۔فیس بُک جہاں نت نئی او ر پرانی معلومات کا خزینہ ہے وہیں اس سوشل نیٹ ورک نے تباہی کا سامان بھی اگلنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے علاقے پٹیل پاڑہ کے ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم 16 سالہ لڑکے نوروز نے اسمبلی کے دوران اپنے ساتھ زیر تعلیم لڑکی فاطمہ کو فائرنگ کرکے قتل کردیا جس کے بعد اسی پستول سے خود کو بھی گولی مار لی۔
پولیس کو جائے وقوع سے نائن ایم ایم پستول اور اس کی گولیوں کے 2 خول بھی ملے تھے۔ یہ واقعہ بھی فیس بک کی دوستی، معاشرتی ناہمواری او غیر اسلامی تربیت کا شاخسانہ ہے۔ جہاں مذکورہ مایوسانہ واقعات کی عکاسی فیس بک پر جنم لیتی ہیں وہیں دوسری طرف فیس بک پر سمندر کنارے ایلان کی مردہ پڑی ہوئی لاش پوری دنیا کے لئے لمحہ فکریہ بن گئی ہے۔یہ ایک بچے کی لاش نہیں معاشرتی بے حسی کرنے رکھنے والوں کے منہ پر پر زور دار تھپڑ ہے۔
الیکڑک اور الیکٹرونکس میڈیا چیخ رہا ہے۔شام کی خانہ جنگی نے ایلان جیسے نونہا ل کے پورے خاندان کو یک لخت ختم کر دیا۔ترکی میں پناہ گزینوں کی جانیوالی کشتی میں سوار پورا خاندان فرداً فرداً کشتی الٹی ہونے سے ڈوبتا گیا۔ایلان کا خاندان اس سے پہلے کینڈا پناہ حاصل کرنے کی درخواست کر چکا تھا لیکن ان کی درخواست رد کر دی گئی۔ایلان کی لاش منظر عام پر آنے کے بعد پوری دنیا پناہ گزینوں کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
پانی کرتا ہے پریشان تب سے ڈوب گیا ہے ایلان تب سے پوری دنیا میں تما م انسانوں باالخصوص مسلمانوں کا برا حال ہے۔تمام مسلمان نا اتفاقی کا شکا ر ہیں۔فرقہ بازی اور توہم پرستی نے تمام مسلمانوں کا خدانخواستہ دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ہر کسی کو اپنے مفادا ت کی پڑی ہے کوئی دوسرے کا کوئی خیال نہیں کرتا۔سب کو ایک ہی خیال ہے کہ تھوڑی محنت سے ڈبل اجرت آئے۔جس کو موقع ملتاہے دوسرے کو زیر وزبر کرنے سے باز نہیں آتا۔ایک دوسرے کے حقوق پامال کرنے میں ہم مسلمان خود ہی باز نہیں آتے۔کوئی کسی کی عزت ،بے عزتی کی پروا ہ کئے بغیر اپنی پگڑی سجانے کے چکر میں ہے۔
جب سے پامال ہوئے حقوقِ انسان ذلیل رہتا ہے انسان تب سے
Terrorism
پوری دنیا میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے۔پھر ایک افسوسناک بات یہ ہے مسلمانوں کے اندار بھی ایسے غدار پیدا ہو رہے ہیں جو چند پیسوں کے عوض اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں اور دہشت گردوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔اس کی بڑی مثال اپنے ملک میں ہونیوالی دہشت گردی کی بڑی وارداتیں اور پکڑی جانے والی سازشیں ہیں۔ایم کیو ایم جیسی بد نام جماعتیں اس کی بڑی مثال ہیں۔پاک فوج ،حکومت اور رینجر کے خلاف بولنے والے ”را” جیسی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں اس لوگ ملک کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں جو ملک و قوم کو ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا نشانہ بناتی ہیں۔اگر مسلمان متحد ہوں تو پوری دنیا میں کوئی بھی ماں کا لال مسلمانوں کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ہندوستان میں دیکھیں مسلمانوں کے ساتھ کتنا ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں بھی ہندوستان کے مظالم سے تنگ مسلمان آئے روز ہندوستانیوں کے مظالم میں پستے رہتے ہیں لیکن وہاں بھی چند نام نہاد مسلمان ہندوسرکار کے خلاف آواز تک نہیں نکالتی جس کی وجہ سے ہندو قوم مزید طاقت آزمائی کرتی ہے۔ہندوستان میں موجود تمام مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو وہاں کے مسلمان مل کر ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔
دیکھ لو قوم مسلم بابری مسجد شہید ہوئی بہت اکڑتا ہے ہندوستان تب سے
بابری مسجد کی شہادت پر ہندوستان کی ہٹ دھرمی تمام مسلمہ امہ کے سامنے ہے۔مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے یکطرفہ سلوک کی تمام تر ذمہ دار ہندوستانی حکومت محض تماشہ دیکھ کر لطف اٹھاتی ہے۔انہی دنوںبابری مسجد کی شہادت کے سلسلہ میں ایک طرف جہاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے اس سانحہ کے ذمہ داروں کو نوٹس بھیج کر ‘ شہادت کی سازش رچنے کے سلسلہ میں جواب طلب کیا ہے ‘ وہیں مودی سرکار نے اس وقت کے کانگریسی وزیراعظم نرسمہا راؤ کی عظیم الشان یادگار قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نرسمہا راؤکی مجرمانہ خاموشی کے نتیجہ میں ہی 6دسمبر کا سانحہ رونما ہوا تھا جب دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ پرستوں نے ایک تاریخی یادگار مسجد(مسلمانوں کی عبادتگاہ)کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں اگر نرسمہا راؤ چاہتے تو مسجد کو شہید ہونے سے بچاسکتے تھے لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ جب اجودھیا میں کارسیوکوں کا برہنہ رقص جاری تھا تو نرسمہا راؤ اپنی رہائش گاہ میں ڈش ٹی وی پر مسجد کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے تھے۔اس دوران انہوں نے نہ تو کوئی فون رسیو کیا اور نہ ہی کسی سے گفتگو کی۔
Babri Masjid
کئی اخبار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے وزارت شہری ترقیات نے گذشتہ ہفتہ اس سلسلے میں ایک تجویز کابینہ کی منظوری کے لئے بھیج دی ہے۔مودی سرکار یہ بھی چاہتی ہے کہ جمنا ندی کے ساحل پر جہاں دوسرے لیڈروں کی یادگاریں قائم ہیں وہیں راؤ کی بھی یادگار قائم ہو۔جمنا ندی کے ساحل پر جو ایکتا استھل واقع ہے اس میں سابق وزیر اعظم آئی کے گجرال ،چندر شیکھر ،سابق صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ،شنکر دیا ل شرما،کے آرنارائنن اور آر وینکٹ رمن کی یادگاریں ہیں اب مودی سرکار انہیں لوگوں کے درمیان راؤ کی یادگاربھی قائم کرنا چاہتی ہے۔بی جے پی اقتدار میں ہے اور اگر وہ اقتدار سے باہر رہ کربھی ملک کے آئین کی دھجیّاں اڑا سکتی ہے تو اقتدار میں رہ کر وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔اب اسے کچھ بھی کرنے سے روکا نہیں جاسکتا لیکن اس معاملہ کے سامنے آنے سے ایک بار پھر یہ افسوسناک سچائی سامنے آگئی کہ وزیراعظم نریندر مودی خود کو جیسا ثابت کرنا چاہتے ہیں اندر سے وہ ویسے ہیں نہیں۔نرسمہار اؤ بھی انہیں اس لئے عزیز ہیں کہ مسلمان ان سے شدید نفرت کرتے ہیں اور بابری مسجد پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے ایک طرح سے انہوں نے ْ’ہندو تعصب’ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
پاکستانی سرحدی علاقوں پر خواہ مخواہ بمباری کرنے والا ہندوستان خود کو بہت بڑی جمہوریت قرار دینے کا جھوٹا دعوے دار ہے۔ہم تمام مسلمانوں اور پاکستانیوں میں ایسا اتفاق ہونا ضروری ہے کہ ہم ہندوستان کے ساتھ ہر قسم کا بائیکاٹ کریں۔ہر قسم کی تجارت اور بزنس کو ہندوستان کے علاوہ باقی ممالک تک بڑھائیں۔ہم سب کو اس بات کا ادارک ہونا ضروری ہے کہ ہندوستان کے علاوہ پوری دنیا کے سارے ممالک پاکستان کے خلاف کم از کم ہندوستان جتنا تعصب نہیں رکھتے۔مسلمانوں کا دین دنیا کا مکمل دین ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس پر عمل پیرا ہو کر ہر مسلمان اجتماعی اور انفرادی طور پر بے مثال ہے۔
پھر کسی گھر کے معصوم نہ تو کم عمری میں نوروز اور فاطمہ کی طرح بے راہ روی کا شکار ہونگے اور نہ ہی خود کشی کریں گے اور نہ ہی ہمیں دنیا کے کسی ساحل پر ایلان جیسے پھولوں کی لاشیں ملیں گے۔بلکہ پوری دنیا میں دینداری اور اسلام کے سر بلند جھنڈے ملیں گے۔کسی گھر میںبارود، پستول اور بم برا مد نہیں ہونگے بلکہ ہر گھردیندار افراد ہونے کی چرچے ہونگے۔ بات ایلان سے چلی تھی اور مسلمانوں کی غافلانہ نیند کی وجہ سے ہندوستانی مظالم تک چلی گئی۔اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام مسلمانوں میں اتفاق اور اتحاد کی فضا پیدا کرے۔ملک میں دہشت گرد اور دہشت پسند پکڑے یا مارے جائیں تاکہ پاکستانی مسلمان چین کا سانس لے سکیں۔آمین