کراچی (جیوڈیسک) بندرگاہوں سے اسلحہ بردار 19 ہزار کنٹینرز غائب ہونے کی اطلاعات کے بعد اب پاکستان کی فضائی حدودسے گزرنے یا پاکستان میں اترنے والے ہزاروں نیٹو طیاروں کی پروازوں کا ریکارڈ بھی غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ کراچی میں غیر قانونی طور پر کارگو اتارنے اور اربوں روپے کی خورد برد کا بھی پردہ فاش ہوگیا ہے۔ ایوی ایشن ڈویژن کے ایف آئی اے کو لکھے گئے خط کے مطابق پاک فضائیہ کے ائیر انٹلی جنس کی فروری 2012 کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستانی فضائی حدود سے افغانستان جانے اور آنے والی نان شیڈول پروازوں کی حقیقی اور ریکارڈ میں درج تعداد میں نمایاں فرق ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اعلی ترین ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ ائیر انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کی بورڈ آف انکوائری نے تصدیق کی اور ذمہ داروں کا تعین بھی کیا ہے۔سی اے اے کے ذرائع نے بتایا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران سن 2000 سے اب تک نیٹو طیاروں کی ہزاروں پروازوں کیلئے پاکستانی فضائی حدود اور ائیرپورٹس استعمال ہوئے۔ ذرائع نے انکوائری رپورٹ کا حوالہ دیے کر بتایا کہ کراچی ایرپورٹ پر اترنے والے نیٹو کے کارگو طیاروں کی لینڈنگ کو سی اے اے کے متعلقہ افسران نان شیڈول پرواز قرار دینے کی بجائے انہیں ٹیکنیکل قرار دیتے رہے۔
اس طرح ان کی بلنگ کہیں کم ہوئی ۔بل کی رقم امریکی ڈالرز میں نقد وصول کی جاتی۔ یہ رقم ریکارڈ میں کم لکھی جاتی اور باقی جیب میں چلی جاتی۔ سی اے اے افسران کی جیب میں گئی رقم کا اندازہ کئی ارب روپے لگایا گیا ہے ۔اس کے علاوہ نیٹو طیارے پاکستانی ائیرپورٹس خصوصا کراچی ایرپورٹ پر نامعلوم کارگو اتارتے جو سی اے اے اور اے ایس ایف کے متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے ایرپورٹ سے باہر بھی نکل جاتا۔
اس کارگو میں کیا ہوتا کسی کو نہیں معلوم۔ نیٹو طیاروں میں کراچی سے کارگو لوڈ بھی کیا جاتا تھا۔ اس کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں۔ پاک فضائیہ کے ایئر انٹیلی جنس نے نیٹو طیاروں میں پاکستانی فضائی حدود سے اسلحہ لے جانے کی بھی تصدیق کی ہے۔ ذرائع کے مطابق انکوائری رپورٹ میں نیٹو طیاروں کے کھیل میں سی اے اے کے جن افسران کو ملوث قرار دیا گیا ہے ان میں اس وقت کے ڈائریکٹر آپریشن، ڈائریکٹر ایر ٹرانسپورٹ، جنرل منیجر بلنگ اور ایر ٹریفک کنٹرولرز شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر ایوی ایشن ڈویژن نے یہ کیس تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا ہے۔