تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری شاعری فنونِ لطیفہ میں ایک بلند مرتبہ فن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے اثرات سے انسانی زندگی کا تخلیقی دھارا خرام آمادہ رہتا ہے، شاعری اپنی حدوں سے آگے نکل کر دوسرے فنون کے دائرۂ عمل میں قدم رکھتی دکھائی دیتی ہے اور یہی وہ امتیازی وصف ہے جو باقی فنونِ لطیفہ سے اسے ممتاز کرتا ہے۔ شاعری اپنے خط و خال کو قائم رکھتے ہوئے کبھی فنِ مصوری کو اپنے مخصوص دائرے میں کھینچ لاتی ہے اور کبھی فنِ موسیقی کو اپنے وجود میں ضم کرنے کی کوشش کرتی ہے، شاعری کی یہ سیماب پائی رائیگاں نہیں جاتی کیوں کہ تخلیقی رچاؤ اور جمالیاتی احساس کے وہ خزانے اس کی دسترس میں ہوتے ہیں جو مصوری، موسیقی یا دیگر فنون کی نمو میں بنیادی توانائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اچھی شاعری کی تعمیر و تشکیل میں دیگر فنونِ لطیفہ کا رنگ و آہنگ اپنے تمام خصائص کے ساتھ شامل رہتا ہے۔ اس لیے عظیم شاعری سے بہ یک وقت تمام فنون کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو قلب و نگاہ میں رچ بس کر انسانی زندگی کو تجلی زار بنا دیتی ہیں۔
عمرانہ مشتاق ایک اعلی تعلیم یافتہ کشادہ نظر اور معاملہ فہم شاعرہ آسمان ادب پر کہکشاں بن کر جلوہ ہائے صد رنگ بکھیر رہی ہیں ۔ انکی غزل اور نظم کا مطالعہ خوش گوار اور مسرت افزا ہے ۔ ان کا جذبہ محبت پر یقین اور اعتماد انکی شاعری شہر محبت کی گلیوں میں گشت کرتی اور اس کے باغوں سے پھول چنتی نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے شہر اقبال میں جنم لیا ابتدائی تعلیم گوجرانوالہ سے حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لئے لاھور شفٹ ہو گئیں جہاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ وہ صحافی ، کالم نگار ، اینکر پرسن ، شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے شعبہ سے بھی وابستہ ہیں ۔ انہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ۔ انکی شاعری پر ایم اے کا مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے۔
عمرانہ مشتاق کا تخلیقی عمل ، عصری شعور اور فکری آگہی کے نتیجہ میں صحیح سمت اور معین منہاج پر صوتی اور معنوی اوصاف کا آئینہ بن کر سامنے آیا ہے وہ ایک ایسے مرحلے پر جستجو اور تحیر کو ہم آغوش دیکھ رہی ہے۔ جہاں ہر سخن ور سوال کرتا ہے ۔ اسے گردو پیش میں جو صورت احوال دکھائی دیتی ہے وہ عدم اطمینان کا سبب بنتی ہے۔
کیوں بڑھ کے پکڑتے نہیں ظالم کا گریبان مجرم کو یہاں اس کی سزا کیوں نہیں دیتے محبوب ، اگر ہیں تمہیں آزاد فضائیں پھر قید پرندوں کو اڑا کیوں نہیں دیتے
انکے لہجہ کومل اور لفظیات میں نزاکت پائی جاتی ہے ۔ لیکن تلخ اور شیریں تجربوں نے اس کی غزل میں وہ رنگ بھرے کہ موضوعات بدلتے موسموں کی طرح مختلف نکتوں کی نشان دہی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کہیں زمان و مکان پر غوروفکر ، کبھی محبت کو جذباتی فیصلہ تصور کرنا اور کہیں معاشرہ میں پھیلی منفی قدروں پر ناقدانہ تبصرہ ۔ اسی طرح زندگی میں محنت کش طبقے کی محرومیوں کی بات کرنا عمرانہ کی غزل کا اختصاص ٹھہرا ہے ۔ وہ رنج و غم نشاط و سر خوشی کو اس عرض عشق کے تسلسل میں ہم سفر دیکھنے کے حق میں ہے۔
محبت فرض ہے پر احتیاط اتنی بھی لازم ہے کسی اک شخص کا چرچہ نہ ہر گز کو بہ کو کرنا محبت کی زباں سے ہے وہ گر نا آشنا ماتی تو پھر بے تاب جذبوں کو تم اس کے رو برو کرنا
ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے “ہجر کا عذاب” “کرب جان” اور “اماوس” جیسے تین مجموعہ ہائے کلام سے اردو ادب کو ثروت مند کیا ہے اور “لیکھاں دی پھلواری” سے پنجابی ادب کو سرشاری سے نوازا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے مثال جدوجہد اور لازوال کردار کو “دلوں کی شہزادی ” کے زیر عنوان قلم بند کیا ۔ اب ان کی تازہ تصنیف “سمندر کا ستارہ” زیر تبصرہ ہے ۔ جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے ۔ اس کا نام ہی علامت اور استعارے کی حشر سامانیوں کا ہے ۔ سمندر سب سے عظیم اور زندگی بخش علامت ہے ۔ ستارہ روشنی کا جگمگاتا استعارہ ہے جو اندھیروں کی بیخ کنی کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے ۔ دیکھیے ڈاکٹر صاحبہ اس مد میں کیا کہتی ہیں۔
جہاں جاؤں تمہارا ساتھ رہتا ہے سمندر میں ستارہ ساتھ رہتا ہے
عمرانہ کی غزل میں محبت ایسا موضوع ہے جو اس کی زندگی اور “سمندر میں ستارہ” میں قوس قزح کے رنگوں یا پھول کی خوشبو کی طرح مشام جاں کو معطر رکھتا ہے ۔ محبت وہ لطیف جذبہ ہے ، جسے عالگیریت کا عکس جمیل اور شرف انسانیت کی روشن دلیل کہنا چاہیے۔
ایک غزل جو محبت کے نرم و نازک جھولے پروان چڑھی ہے جہاں آنسوؤں کے گرنے کو ستارہ سمجھا گیا ہے اور حالات کی تیزابیت کو محبت کی میٹھی میٹھی چاندنی میں بھگو کر طشت از بام کیا گیا ہے ۔ یہ غزل دل کے تاروں سے الجھ کر روح کی وادی میں اتر جاتی ہے۔
جب زندگی کا ہم نے اشارہ سمجھ کیا پھر ہر بھنور کو خود ہی کنارہ سمجھ لیا یہ عمر اس کا ہاتھ پکڑ کر گزار دی ہم نے کسی کے غم کو سہارا سمجھ لیا ہم نے اداسیوں کا منایا نہیں ہے سوگ آنسو گرا تو اس کو ستارا سمجھ لیا اس سے محبتوں کا کریں کس طرح حساب جس نے ہمارے دل کو خسارہ سمجھ لیا اچھا! نہیں ملوں گی کبھی عمر بھر تمہیں مطلب تمہاری بات کا سارا سمجھ لیا عمرانہ لڑکیوں کا مقدر عجیب ہے جس گھر کی ہو گئیں ، اسے پیارا سمجھ لیا
انکی شاعری میں عشق و محبت کی گہری اور پر پیچ معنویت اور بے آنت پر اسرایت کا عمل دخل نظر آتا ہے ۔ اس میں محبت کا کڑوا پن نہیں بلکہ معاشرے میں موجود اقدار کی ٹوٹ پھوٹ کی جانب بلیغ اشارہ ہے۔ اس پس منظر میں “سمندر میں ستارہ” سے رجوع کرتے ہیں۔
باتوں میں لگا کر اسے لے جائےکوئی ساتھ نادان یہ دل اتنا بھی نادان نہیں ہے یہ عشق خسارا ہے مگر ایسا خسارا نقصان بھی ہو جائے تو نقصان نہیں ہے کبھی دریا کو آنکھیں سونپ دی جائیں کبھی آنسو کو دریا کر لیا جائے اسے یقین ہے ہماری وفا ہے اس کے لئے جو چاہتا ہو ہمیں وہ کسی کو کیا چاہے
ڈاکٹر عمرانہ نے “سمندر میں ستارہ” کے اشعار میں بھرپور انداز میں انسانیت کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے جو کھلے خط کی طرح واضح بھی ہے اور سلیس بھی ۔ انسانیت شناسا اشعار پیش ہیں۔
ہر نیکی سے بڑھ کر ہے یہی نیکی جہاں میں اجڑے ہوئے لوگوں کا ہر اک درد بٹائیں وہ طبقہ جو پستا ہی چلا آیا ہے اب تک اس طبقے کو ہم اپنے برابر کبھی لائیں جوخاک بہ سرپھرتے ہیں گلیوں میں وطن کی ان تاروں کو تعلیم سے ہم چاند بنائیں
“سمندر میں ستارہ” فقط غزلوں کا مجموعہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں کچھ نظمیں ، انتظار حسین ، احمد فراز ، بے نظیر بھٹو ، حبیب جالب اور منیر نیازی پر ہیں جبکہ دوسری نظموں میں معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا -عورت ، شام ، فیصلہ ، پیغام ، کشمیر ، کب تک ظلم رہے گا ، خواب ، کوئٹہ کے نام ، محبت کا جنم دن پھول جیسا اور مادر وطن کی محبت سے سرشار نظمیں جیسے آزادی کا گیت ، قائداعظم ، علامہ محمد اقبال ، پاکستان، وطن کے حوالے سے اور نغمہ شامل ہیں۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر صاحبہ کی غزلوں اور نظموں سے جو تاثر عیاں ہوتا ہے وہ بلند آہنگ اور ترش لہجے سے گریزاں ہے ۔ وہ مثبت سوچوں کا عکاس ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ محبت کو جذبوں کا وسیلہ خیال کرتی ہیں اور معاشرے کے کھردرے پن ، منفی رویہ جات اور غیر آسودہ حرکات کو مخمل کا غلاف چڑھا کر ادبی منظر کا حصہ بناتی ہیں۔