روہنگیا (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ نے ایک ہفتے سے بھی زیاہ وقت سے سمندر میں پھنسی روہنگیا پناہ گزينوں کی ایک کشتی کو بچا لینے کی اپیل کی ہے۔ اس میں سوار بہت سے لوگ بیمار ہیں جبکہ بہت سے دم توڑ چکے ہیں۔
مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے پیر 22 فروری کو کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی مذکورہ کشتی میں سوار بہت سے افراد پانی اور کھانے کی شدید قلت کی مار جھیل رہے ہیں جبکہ اس میں سے بہت سے افراد بیمار ہو چکے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ خستہ حال کشتی بحر انڈمان میں مشکلات میں پھنس گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے جنوب مشرقی ممالک سے اس کشتی کو فوری طور پر بچانے پر زور دیا ہے۔ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ اس کشتی میں سوار کچھ لوگ پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے جبکہ اواخر ہفتہ ان ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
بیان کے مطابق، ”چونکہ مہاجرین کے مقام کے بارے میں صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں، ہم نے متعلقہ سمندری علاقوں کے حکام کو متنبہ کر دیا ہے اور اپیل کی ہے کہ وہ جلد از جلد اس کشتی کو مدد پہنچائیں۔”
یہ کشتی بنگلہ دیش کے کاکس بازار اور ٹیکناف سے دس روز قبل روانہ ہوئی تھی لیکن اچانک اس کا انجن خراب ہوگیا جس کے بعد تقریباً ایک ہفتے سے یہ پانی کی سطح پر بے یارومددگار تیر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ آخر اس کشتی میں کتنے افراد سوار ہیں یا پھر کشتی ابھی کس مقام پر ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین نے بتایا ہے کہ ان کا کھانے پینے کا سامان کئی روز پہلے ہی ختم ہوگیا تھا۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ پھنسے ہوئے افراد کو بچا کر قرنطینہ کرنے جیسی انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس کا کہنا تھا، ”جان بچانے اور مزید المیے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا، ”بہت سے افراد انتہائی غیر محفوظ حالت میں ہیں اور بظاہر شدید پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ متعدد مہاجرین اپنی جانیں پہلے ہی گنوا چکے ہیں اور پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران اموات میں اضافہ ہوا ہے۔”
بھارت کے ایک سینیئر کوسٹ گارڈ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اس کشتی کا پتہ تو چل گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق ابھی تک محفوظ ہے۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس میں سوار افراد کی حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے، ”یہ ایک حقیقت ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن کا خطرناک سفر اب بھی جاری ہے، اس لیے ان کی فوری تلاش، امداد اور علاقائی سطح پر اجتماعی ردعمل کی اشد ضرورت ہے۔”
میانمار کی ریاست راکھین میں، جہاں روہنگیا مسلم اقلیت کا بہت بڑا حصہ آباد تھا، ملکی سکیورٹی دستوں نے اگست 2017ء میں ایک ایسا کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جس دوران وہاں سے تقریباً سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا باشندے نقل مکانی کر کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
لاکھوں روہنگیا مہاجرین آج بھی بنگلہ دیش کے میانمار کے ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں میں بہت سے مہاجر کیمپوں میں انتہائی تکلیف دہ حالات میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کار بھی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا اقلیت کے خلاف جو آپریشن کیا تھا، وہ ‘نسل کشی کے ارادے‘ کے تحت تھا۔