تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا میں آپ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی۔ میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے۔ جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے۔ اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے۔
سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اس کو دلواؤں۔ اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے۔ میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں۔ (طبری۔ ابن ہشام) خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی و لادت واقعہ فیل کے تین برس بعد مکہ میں ولادت ہوئی۔آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
آپ کا نام پہلے عبدالکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبداللہ رکھا، آپ کی کنیت ابوبکر۔ آپ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی ہے۔ آپ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا۔ مکہ میں آپ کے خاندان کو نہایت معزز مانا جاتا تھا۔ کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دوسرے کے پاس آمد و رفت، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھا۔ مزاج میں یکسانیت کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ بعثت کے اعلان کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔
Freeing Saves
ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنے مال و دولت کو خرچ کرکے مؤذن رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت بے شمار ایسے غلاموں کو آزاد کیا جن کو ان کے ظالم آقاؤں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سخت ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت پر ہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ .، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے اکابر صحابہ ایمان لائے جن کو بعد میں دربار رسالت سے عشرہ مبشرہ کی نوید عطا ہوئی۔آپ کی شان و عظمت کو مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق انبیاء علیھم السلام کے بعد مخلوق میں سب سے افضل، خلیفہ اول، خلیفة الرسول، رسول اللہ ۖ کے سسر، ہجرت کے ساتھی، غار ثور کے رفیق، مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے، غزوات میں شرکت کرنے والے، راہ خدا میں مال خرچ کرنے والے اور گنبد خضراء میں رسول اللہ ۖ کے ساتھ آرام کرنے والے ہیں۔ آپ کا لقب صدیق و عتیق اور کنیت ابو بکر ہے۔
اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ دنیا جہاں میں اللہ پاک کی ذات کو سب سے محبوب چیز ہمارے اور آپ کے پیارے نبی کریم غفور و رحیم جناب ِ رسالت ِ مآب ۖ ہیں ۔ جیسا کہ تاریخ اسلام بتلاتی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان کی تعداد بھی لاکھ سے اُوپر تھی ایک لاکھ چودہ ہزار اور بعض جگہوں پر ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش کے قریب بیان ہوئیں ہیں، تمام صحابہ کرام کی فضیلت اپنی اپنی جگہ مسلمہ ہیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کا اعلان اللہ پاک نے اپنی الہامی و لا ریب کتاب مقدس قرآن مجید میں کیا ہے ۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ توبہ کی آیات میں اس طرح شان بیان کی گئی (التوب، 9: 40)ترجمہ۔
”اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہےo”۔
Hazrat Abu Bakar Sadique
تاریخ اسلام و حدیث مبارکہ کی روشنی میں روشن باب عظمت ِ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ سارے انسانوں میں رفاقت اور اپنے مال میں مجھ پر زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔ (بخاری و مسلم) اس حدیث پاک کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق غزوات، ہجرت، غار ثور میں ساتھ دینے اور مسجد نبوی کی تعمیر، غزوہ تبوک میں حضرت بلال کو آزاد کرنے وغیرہ میں مال اللہ کی راہ میں خرچ میں آپ کے احسان سب سے بڑھ کر ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ہم پر کسی کا احسان نہیں ہے مگر ہم نے اس کا بدلہ اداکر دیا سوائے ابو بکر کے کہ ہم پر ان کا احسان ہے۔ اللہ قیامت کے دن ان کو اس کا بدلہ دے گا۔ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہ دیا جتنا ابو بکر کے مال نے دیا۔ (جامع ترمذی)اس حدیث پاک میں رسول اللہ ۖ کی ذات گرامی نے واضح اعلان فرما دیا کہ حضرت ابو بکر کے احسان کا بدلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ دے گا۔ نیز یہ اعلان کہ سب سے زیادہ نفع حضرت ابو بکر صدیق کے مال نے دیا۔
حضرت عمر سے روایت ہے کہ ہم کو رسول اللہ ۖ نے صدقہ کا حکم دیا اتفاقاً اس وقت میرے پاس مال بہت تھا تو میں نے سوچا کہ اگر میں کسی دن ابو بکر سے بڑھ سکا تو آج بڑھ جاؤں گا۔فرماتے ہیں کہ میں اپنا آدھا مال لایا تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ تم نے اپنے بال بچوں کے لیے کیا چھوڑا میں نے عرض کیا اتنا ہی۔ اور ابو بکر سارا مال لے آئے جو اُن کے پاس تھا۔ فرمایا اے ابو بکر تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا۔ عرض کیا میں نے اس کے لیے اللہ اور اس کا رسول رکھا ہے حضرت عمر نے کہا کہ میں کسی چیز میں ان سے آگے نہ بڑھ سکوں گا۔ (جامع ترمذی؛ سنن ابو داؤد) 4 حضرت عمر سے روایت ہے کہ ان کے پاس حضرت ابو بکر کا ذکر کیا گیا تو آپ روئے اور بولے کہ میری آرزو یہ ہے کہ میر ے سارے عمل حضرت ابو بکر کے ایک دن اور ایک رات کے عمل کی طرح ہوتے۔ آپ کی ر ات وہ رات ہے جب رسول اللہ ۖ کے ساتھ غارِ ثور کی طرف پہنچے تو عرض کیا اللہ کی قسم اُس وقت تک آپ ۖ اس میں داخل نہ ہوں یہاں تک کہ میں اس میں پہلے داخل نہ ہو جاؤں۔ اگر اس میں کوئی نقصان دینے ولی چیز ہو تو مجھے نقصان پہنچے نہ کہ آپ ۖکو۔ آپ اس میں داخل ہوئے اسے صاف کیا اور اس کے کنارے میں سوراخ پائے۔ آپ نے کپڑے کو پھاڑ کران سوراخوں کو بند کیا۔ ان میں سے دو سوراخ رہ گئے ان میں اپنے پاؤں دے دیے۔
Muhammad PBUH
پھر رسول اللہ ۖ سے عرض کیا کہ تشریف لائیے تو رسول اللہ ۖ تشریف لائے اور اپنا سر آپ کی گود میں رکھا اور سو گئے۔ ابو بکر کے پاؤں میں سوراخ سے ڈس لیا گیا۔ آپ نے بالکل حرکت نہ کی اس ڈر سے کہ رسول اللہ ۖ جاگ نہ جائیں۔ پھر آپ کے آنسو رسول اللہ ۖ کے چہرہ انور پر پڑے تو فرمایا اے ابو بکر کیا ہوا؟ عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میں ڈس لیا گیا۔تب رسول اللہ ۖ نے اپنا لعاب مبارک لگا یا اور وہ تکلیف جاتی رہی۔ پھر وہ زہر پلٹ آیا اور آپ کی وفات کا سبب بنا اور آپ کا دن وہ ہے کہ جب رسو ل اللہ ۖ نے وفات پائی۔ اہل عرب مرتد ہو گئے اور بولے کہ ہم زکوٰة ادا نہیں کریں گے۔ فرمایا اگر مجھے ایک رسی کا انکار کریں گے تو میں ان کے خلاف جہاد کرونگا۔ میں نے عرض کیا اے خلیفةالرسول لوگوں کی تالیف قلب کریں اور ان پر نرمی کیجیئے تو مجھ سے فرمایا تم جاہلیت میں سخت تھے اور اسلام میں نرم۔ حقیقی وحی بند ہو چکی اور دین مکمل ہو چکا۔ کیا دین میں کمی کی جائے گی حالانکہ میں زندہ ہوں۔ (مشکوٰةالمصابیح)اس حدیث پاک میں بیان کردہ امور یہ ہیں۔
حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ منبر پر تشریف لائے تو فرمایا کہ ایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اس کا اختیار دیا کہ اسے دنیا کی تروتازگی اتنی عطا کرے جتنی وہ چاہے اور وہ نعمتیں جو اس کے پاس ہیں تو اس بندے نے اللہ کے پاس نعمتوں کو اختیار کر لیا۔ یہ بات سن کر حضرت ابو بکر صدیق رونے لگ گئے۔ عرض کیا آپ پر ہمارے ماں باپ قربان۔ ہم صحابہ نے ان پر تعجب کیا۔ لوگوں نے کہا اس بزرگ کی طرف دیکھوکہ رسول اللہ ۖ نے ایک بندے کے بارے خبر دی اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ فدا ہوں۔ پھر معلوم ہوا کہ اختیار دے ہوئے بندے رسول اللہ ۖ تھے۔ اور حضرت ابو بکر صدیق ہم سب سے زیادہ علم والے تھے۔
(بخاری و مسلم)اس حدیث میں درج ذیل امور ہوئے: (i) رسول اللہ ۖ کو زندگی اور وصال کے مابین اختیار دیا گیا۔ (ii) حضرت ابو بکر صدیق بہت فہم و فراست والے تھے۔ اس بیان سے فوراًجان لیا کہ آپ ۖکے وصال کی طرف اشارہ ہے۔ اس لیے رونا شروع کر دیا۔ (iii) جب اس واقعہ کے پانچ روز بعد آپ ۖ کا وصال ہوا تو صحابہ کرام کو پتہ چلا کہ حضرت صدیق اکبر کیوں روئے تھے؟ صحابہ کرام نے آپ کے سب سے بڑا عالم ہونے کا اعتراف کیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام سمجھنے کیلئے ایک اور حدیث نبی اکرم ۖ کے پاس ایک عورت آئی اس نے کسی چیز کے متعلق آپ ۖ سے بات کی تو اسے رسول اللہ ۖ نے دوبارہ حاضر ہونے کا حکم دیا۔ عرض کیا اگر میں آؤں او ر آپ کو نہ پاؤں شاید اس کی مرادآپ ۖ کا وصال تھا۔ فرمایا اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس آجانا۔ (بخاری و مسلم)اس حدیث پاک میں حضرت ابو بکر صدیق کے بلند مقام کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کی خلافت کی طرف اشارہ بھی ہے۔
حضرت اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا: ابوبکر! ابوبکر! روح القدس جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے کہ میری اُمت میں سے میرے بعد سب سے بہتر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔” (طبرانی، معجم الأوسط، 6/292، رقم: 6448)۔