تحریر: دانیہ امتیاز اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے سوچنے سمجھنے غورو تدبرّ کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے مگر افسوس آج کا انسان اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں پر غور و فکر کرنے اور شکرادا کرنے کے بجائے دوسرے انسانوں کے عیب تلاش کرنے میں اپنا وقت صرف کر رہے ہیں۔ آج کل کے وقتوں میں انسان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ دوسرے کی برائیوں کو تلاشنا اور پھر ان کا بہت فخر سے اپنے چاروں طرف پرچار کرنا ہے۔
دورِ جدید میں نئی نسل سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر محض اپنی انٹرٹینمنٹ کے لیے سیاستدانوں، اداکاروں، کھلاڑیوں، میڈیا سے وابستہ لوگوں، صحافیوں اور دیگر لوگوں کا مذاق اڑا کے ان کے مضحکہ خیز تصاویر بنا کے بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ گو کہ سیاستدان اور دیگر شخصیات کے اعمال و حرکات تکلیف دہ ہیں، میڈیا کا رویہ پریشان کن ہے، جس نے عام آدمی کی زندگی دوبھر کردی ہے مگر اس کا قعطا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بھی ان جیسے بن جائیں
Allah
ان کی صف میں کھڑے ہوجائیں۔ ہم جس مذہب کے ماننے والے اور جس عظیم ہستی کے امّتی ہیں ہمیں یہ بات شیوہ نہیں دیتی کہ ہم کسی مسلمان کا مذاق بنائیں یا اس کی پگڑی یوں سرِعام اچھالتے پھریں۔ لوگ بلا تصدیق بڑے مزے سے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کی بلیک منی ہے، فلاں رشوت لیتا ہے، غدّار اور جھوٹا ہے، وہ روزہ نہیں رکھتا نماز نہیں پڑھتا، ملک دشمن ہے ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی مسلمان کی عزّت پر حملہ کریں اسلام میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بد ترین سود مسلمان کی آبرو ریزی ہے”۔ بے شک سب انسان اپنے ہر عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہیں اور وہ بہتر انصاف کرنے والا ہے اس مشکل اور کٹھن وقت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے اپنی کوتاہیوں اور رویوں پہ نظر ڈالیں اور صبر سے کام لیں اگر ہم سب اپنا قبلہ درست کرلیں تو بہت سی پریشانیوں سے نجات پا کے ہم ایک پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارسکتے ہیں۔