اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی نے ایوان بالا سینیٹ کی طرف سے اس آئینی بل کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے، جس کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھائی جائینگی۔
پاکستان کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی نے ایوان بالا سینیٹ کی طرف سے اس آئینی بل کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے، جس کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھائی جائینگی۔ تاہم ان کے خیال میں قومیت پرستانہ عسکریت پسندی کے شکار اس صوبے کے لیے مزید اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ سینیٹ نے بروز پیر متقفہ طور پر ایک آئینی بل منظور کیا تھا جس کے مطابق بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 65 سے 80 کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ بل کے حق میں تمام موجود 71 ارکان نے ووٹ دیا۔ بل بلوچستان کے انیس ارکان سینیٹ نے پیش کیا تھا۔ ان ارکان کا تعلق صوبے کی تمام پارلیمانی پارٹیوں سے ہے۔
سیاسی جماعتوں نے اس بل کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر نشسستیں بڑھ جاتی ہیں تو سرداروں کے علاوہ اسمبلی میں کچھ عام لوگوں کے آنے کی بھی گنجائش ہوجائے گی۔ “جنرل ضیاء کے دور سے کچھ لوگوں نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ بلوچستان کے کون سے علاقہ سے کون سا سردار آئے گا۔ مثال کے طور پر نصیر آباد سے جمالی اور مگسی قبیلے کے سردار آجاتے ہیں۔ قلات سے زہری اور خضدار سے مینگل اور بزنجو آجاتے ہیں۔ یہی صورت حال دوسرے علاقوں کی بھی ہے لیکن نشستیں بڑھانے سے متوسط طبقے کے افراد بھی اسمبلی میں آسکیں گے۔”
بلوچستان سے غائب کروا دیے جانے والے افراد کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے۔
بلوچستان میں جنرل مشرف کے دور میں شروع ہونے والی علیحدگی کی تحریک اب بھی چل رہی ہے، جس کا مرکز مکران ڈویژن ہے۔ اس عسکریت پسندی کی وجہ سے صوبہ بد امنی کا شکار ہے اور وہاں وفاق کے حوالے سے بہت تحفظات پائے جاتے ہیں۔ کیا اس اقدام سے بلوچستان کی قومیت پرستانہ عسکریت پسندی کو کم کرنے میں مدد ملے گی؟ اکرم بلوچ اس معاملے میں پر اُمید نہیں ہیں۔ “عسکریت پسندوں کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ نہ وفاق کو مانتے ہیں اور نہ ہی پارلیمانی سیاست کو، تو میرے خیال میں عسکریت پسندی پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر گمشدہ افراد کے معاملے کو حل کیا جائے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے سمیت صوبے کے دوسرے مسائل حل کیے جائیں، تو شائد عسکریت پسند کچھ کمزور پڑجائیں۔”
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی صوبے کی نشستیں بڑھائی جائیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں اس فیصلے کو کچھ زیادہ اہم نہیں سمجھتی۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ وفاق اور صوبے کا ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ہمارا اصل مطالبہ یہ تھا کہ قومی اسمبلی میں صوبے کی نشستیں بڑھائی جائیں لیکن اس مسئلے پر ن لیگ، پی پی پی، ایم کیوایم اور پی ٹی آئی نے ہماری مخالفت کی۔ بلوچستان کے مسائل وفاق سے ہیں، جن کا حل کسی حد تک قومی اسمبلی میں ہماری نشستیں بڑھانا ہے۔”
بلوچستان ایک عرصے سے عسکرست پسندی کا شکار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس اقدام سے بلوچستان کے دیرینہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ “صوبے کا ایک اہم مسئلے گمشدہ افراد کا ہے، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ پھر ہمارے وسائل کے حوالے سے سوالات ہیں۔ سی پیک کے مغربی روٹ نہ بننے کی وجہ سے مسائل ہیں۔ ہمارے صوبے کے جعلی ڈومیسائل بناکر دوسرے صوبے کے لوگ ہمارا روزگار چھین رہے ہیں۔ تو یہ سارے مسائل اس اقدام سے حل نہیں ہوں گے۔”
سماجی علوم کے چند ماہرین کا خیال ہے کہ بلوچستان کے مسائل اب گھمبیر ہو چکے ہیں، جس کے لیے انقلابی اقدامات ہونے چاہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ بلوچ نواجون کی احساس بیگانگی ہے۔ “میرے خیال میں اس اقدام سے مقامی طور پر کسی حد تک بلوچستان کے لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن صوبے میں جو سکیورٹی کی صورت حال ہے، وسائل کے حوالے سے جو شکوے ہیں اور نوجوانوں میں جو بڑھتا ہوا احساس بیگانگی ہے، اس کے لیے حقیقی معنوں میں اقدامات اٹھائے جانے چاہیں۔”