تحریر : ممتاز ملک ہماری زندگی کا سچ یہ ہے کہ جہاں جذبات نہیں رہتے وہاں صرف روبوٹ رہا کرتے ہیں .. کسی نے کہا کہ جذبات بیکار شے ہیں ان کیساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی . آپ کی بات مان لیں کہ جذبات ایک بیکار شے کا نام ہے جس پر کوئی نظام نہیں چل سکتا تو اللہ نے یہ بیکار جزبہ پیدا ہی کیوں کیا ؟ عورت کو مسئلہ کہنے والا نہ انسان ہے نہ مسلمان. دنیا کی پہلی فرمائشی تخلیق عورت کی ہے …. دنیا میں اللہ کے بعد تخلیق کی ذمہ داری عورت کو انہیں جذبات کے بل پر دی گئی … عورت ہی دنیا میں آنے کے بعد شفقت اور محبت کی پہلی علامت کسی بھی انسان کے لیئے ہوتی ہے . اور اس کی بنیاد ہیں اس کے جزبات …. ایک خاتون نے ایک بحث کے دوران مرد کی دوسری تیسری اور چوتھی شادی کی بڑے دھڑلے سے وکالت کی کہ یہ اللہ کا “حکم” ہے اس میں عورت کو ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے . تو ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کے لیئے شادی بلکہ شادیوں کی ایسی مثال اور ” حکم” کی بات پر باقاعدہ برا بھی مان گئی اور ذاتیات زاتیات کا رونا رونے لگیں . تو ہم نے کہا کہ بی بی عورت کو ہلکان ہونے کی ضرورت اس لیئے ہے کہ سڑک پر بچوں کی لائن لیکر وہ کھڑی ہوتی ہے مرد نہیں .دربدر عورت ہوتی ہے مرد نہیں۔
برا نہ مانیں تو آپ کو بھی ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ نے اپنے میاں کی کتنی مزید شادیاں کروائی ہیں …. دو دو یا تین تین .. آپ تو شاید کماتی بھی ہیں پھر دل تو کافی بڑا ہو گا آپ کا … ہم جیسی عام عورت مرد کو یہ حق دینے میں مجاز نہیں تو خلع لیکر اپنی زندگی اپنی مرضی سے کسی اور مرد کیساتھ شروع کرنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق رکھتی ہے اور اس میں ہمارا کوئی باپ بھائی یا شوہر بات کرنے کو اعتراض کا کوئی نہیں رکھتا… موصوفہ کے مطابق مردوں کو اس کی “اجازت کا حکم” ہے “اجازت کا حکم “تو آپ کی نئی اختراع ہے ..اسے اپنی فرمائش کہیں تو اچھا ہے .. دین کا حلیہ کیوں بگاڑ رہی ہیں . اور آدھی آیت یا آدھی حدیث بیان کرنا بڑی گمراہی ہے . اس آیت اور اس سے متصل آیت کے کو مکمل کیجیئے…. (اور نکاح کرو ایک ایک دو دو اور تین تین لیکن عدل کیساتھ … اور سمجھو تو تمہارے لیئے ایک ہی کافی ہے کیونکہ تم عدل نہ کر سکو گے ) یہاں اجازت دی گئی ہے . اور آگے اس اجازت کی شرائط بھی بیان کی گئی ہیں ..اسے کیوں بیان کرنے کی زحمت نہیں فرمائی جاتی .. وگرنہ معاشی اور اخلاقی اعتبار سے تو ایک بیوی اور دو تین بچے بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہے ہمارا آج کا مرد۔
اللہ پاک نے ہی یہ فرما کر بات پوری کر دی کہ”اور میں جانتا ہوں کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے سو تمہارے لیئے ایک ہی بیوی بہتر ہے ” اب اگر اسلامی مثال ہی دینی ہے تو … *کیا صحابہ کرام کی بیگمات نے بہت مالدار زندگی گزاری ؟ *کیا وہ اپنی بیویوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے؟ *کیا ان کے پاس ہر بیوی کو دینے کا ذاتی مکان تھا ؟ *کیا ان کے بچے ان کے خرچ پر بیس بیس سال تک تعلیم حاصل کرتے تھے ؟ اور سب سے خاص بات … *کیا صحابہ نے جیسے صبر شکر پر بیویاں رکھیں ، کیا آج کی کوئی دوسری یا تیسری بیوی بننے کی شوقین خاتون بھی رہ سکیں گی ؟ *کیا یہ خود اپنی ذمہ داری پر کسی سے بچے پیدا کر کے اسے پالیں گی . * بنا خرچہ مانگے.. اس کی پہلی بیوی کی مشقت سے بنائی جائیداد میں اپنا اور اپنے بچے کا حصہ ڈالے بنا خوشی سے زندگی گزار لیں گی ؟ کیونکہ آج اگر واقعی کوئی خاتون مم محض شوہر کا رشتہ نام کو ہی مانگ رہی ہے تو کل کو اسے چوبیس گھنٹے وہ اپنے قدموں میں بھی چاہیئے * پھر وہ اسے روز فرمائشیں پوری کر کے دے . *اس کو گھر لیکر دے . *گاڑی بھی الگ لیکر دے، *اس کو زیورات کے تحفے دے . *اسے ماہانہ منہ مانگا خرچ دے . (بڑے مطالبات اور رولےشروع ہو جاتے ہیں )
Wedding
*پہلی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف عورت کا مرد کو دوسری شادی سے منع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ مرد بھی معاشی لحاظ سے آج کسی بیوی کو کجھور اور حجرے میں تو نہیں رکھے گا نہ عورت رہے گی … *دوسری بات کہ کتنے مرد ہیں جو کم صورت ، ان پڑھ ، مطلقہ، اپنے سے بڑی یا ہم عمر ہی سے شادی ہر تیار ہے “دو چار نہیں مجھ کو فقط ایک دکھا دو جس مرد کی آنکھوں میں کوئی ایسی حیا ہو ہم سب نے ایسی کئی تیس پینتیس سال کی خواتین دیکھی ہیں.جو کنوارے مرد کے علاوہ کسی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں . اب کوئی ان سے پوچھے کہ کتنے تیس سے چالیس سال کے مرد ان کو کنوارے ملیں گے … عموما اٹھائیس تیس تک وہ بھی شادی کر چکے ہوتے ہیں . اور دوسری شادی کے خواہشمند مردوں میں سب سے * پہلا اور حقیقی حق بدکردار بیوی والوں کا… *دوسرا حق پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے والوں کا ہے . *تیسرا حق بدزبان بیوی ہو جبکہ خود بااخلاق اور اچھے زبان و کردار کا ہو تو. ..
جو خواتین بڑے اونچے معیار کے آئیڈیل کی تلاش میں اپنی شادی کی عمر گنوا چکی ہیں انہیں دوسروں کے شوہروں پر حریص نظریں ڈالنے کی بجائے پہلے سے طلاق یافتہ ، رنڈوے یا بے اولاد دوسری شادی کے خواہشمند لوگوں کی جانب متوجہ ہونا چاہیئے . اور اگر اولاد والے بھی ہیں تو اسے بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے . دوسری شادی میں اگر خاتون یا صاحب پہلے سے کوئی اولاد رکھتے ہیں تو ئے ساتھی کو اللہ کی رضا کے لیئے انہیں بخوشی اپنانا چاہیئے … کوئی کام تو محض اللہ کی خوشنودی کے لیئے ہونا چاہیئے . اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو بھی نئی ماں یا باپ کے سوتیلے پن کا خوف اور ہوا ان بچوں کے ذہن میں نہیں پیدا کرنا چاہیئے، بلکہ ان کے دل کو نئے رشتے کے لیئے محبت اور احترام کیساتھ نرم کر کے اپنے نیکی کے موقع کو اپنے نام سے اللہ کے ہاں درج کروانا چاہیئے۔
اپنی عمر سے دو چار سال بڑے انسان کو اپنا کر خاتون اپنے لیئے نفسیاتی طور پر تحفظ محسوس کرتی ہے . شادی کی عمر پار کرتی خواتین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے . ناکہ بسے بسائے ہنستے مسکراتے گھروں پر ڈائن بن کر پنجے گاڑنے چاہئیں . انہیں باتوں پر وہ دوسری عورت کے لیبل سے جان نہیں چھڑا پاتی . کیونکہ اوپر بیان کی گئی وجوہات سے آنے والے عورت دوسری عورت نہیں کہلاتی …. صرف بسے ہوئے گھر میں زبردستی داخل ہونے والی عورت تادم مرگ دوسری دوسری عورت ہی رہتی ہے۔