شبِ زیست کے فلک پر میرا ماہتاب تو ہے میرے غنچئہ وفا پر جو کھلا گلاب تو ہے جو شمع امید کی تھی تیری ذات سے جلی تھی اے تصورِ شکستہ پسِ اضطراب تو ہے میرے اشکوں کے شہر میں یہ عجیب شور کیسا کہ ہوائیں کہہ رہی ہیں پسِ انقلاب تو ہے میری سوچ سے پرے تھا وہی آگیا زباں پر نہ میں داستاں ہوں تیری، نہ میری کتاب تو ہے تجھے کیا گلے لگایا، قطعی پتا نہیں تھا ارے عشقِ بے حجابی یہاں اک عذاب تو ہے مجھے راس آنے والا مجھے راس کیوں نہ آیا یہی غم ستا رہا ہے میرا انتخاب تو ہے وہ شرارہ پل رہا ہے، یہاں تیرے میرے دل میں تیرا اضطراب ہوں میں، میرا اضطراب تو ہے میرے آئینے کے گھر میں تجھے کیا جگہ دیا تھا میرے سارے رازِ ہستی، کیا بے نقاب تو ہے یوں نثار کام لینا، میری تشنہ کامیوں سے میری پیاس کو بجھائے کہاں ایسا آب تو ہے
Ahmed Nisar
شاعر : احمد نثار Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in