فرقہ وارانہ قتل و غارت گری

Resolution Pakistan

Resolution Pakistan

23مارچ 1940ء کو جب قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی تو اس وقت منٹو پارک(اب مینار پاکستان) میںقائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوںنے اس عزم کا اظہارکیا تھا کہ ہم اس ملک کو لاالہ الااللہ کی جاگیر ملک بنائیں گے اور یہاں قرآن وسنت کا نافذ کیاجائے گا جو پوری دنیا کیلئے ایک بہترین نمونہ ہوگااور اسلام کے اس قلعہ کو دیکھ کر وہ قومیں اور انسان جو ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں اور مغرب کے تابع مہمل بن کر غلامی کی زندگیاں بسر کر رہے ہیں ‘ ان تک اسلام کی آفاقی دعوت پہنچے گی ‘ وہ اسے قبول کریں گے اور انہیں دشمنان اسلام کے غاصبانہ قبضوں سے نجات ملے گی۔

نظریہ پاکستان صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر نظریہ ہے یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنے خطبات میں فلسطین اور دیگر خطوںکے مظلوم مسلمانوںکے حق میں بھی بھرپور آواز بلند کی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہم نے اللہ سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا نہیںکیا۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی جسکی وجہ سے قوم منتشر ہوئی اور فرقہ واریت،عصبیتیں اور لسانی جھگڑے جو دوقومی نظریہ کی بنیاد پر چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں ختم ہوگئے تھے اور اسلامیان برصغیر کلمہ طیبہ کی بنیادوں پر متحد ہو گئے تھے ‘ان عصبیتوں و لسانی جھگڑوں نے ایک بارپھر سر اٹھالیااور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اگر دیکھا جائے تو فرقہ واریت کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے ‘ یہ اختلافات شروع سے چلے آرہے ہیں مگر قوم میں فکری انتشار اور تعصب کی فضا سے اسلام دشمن قوتوں نے بہت فائدے اٹھائے اور امریکہ وبھارت سمیت دیگر قوتوں کو مداخلت کے مواقع ملے جس سے اسلام کے نام پر ملک کے مختلف شہروں و علاقوںمیں قتل و غار ت گری کا نہ ختم ہونے والا عمل شروع ہو گیا جس سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

ہم صاف طور پر سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کے اندر کا نہیں باہر کا ایجنڈا ہے۔اسلام امن سلامتی کا دین ہے یہ آپس میں تشدد اور قتل وغارت گری کی اجازت نہیں دیتا۔اس لئے اس تشدد کو فی الفور ختم کرنے کی ضرورت ہے جو وطن عزیزکی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔پاکستان اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہاں کوئی سندھی، بلوچی، پٹھا ن اور پنجابی کا مسئلہ نہیں ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے جب کلمہ طیبہ کی بنیاد پر تحریک پاکستان کا آغاز کیا تھا تو یہی بگٹی، مری اور مینگل قبائل نے ان سے کہا تھا کہ اسلام کی بنیاد پر ہم آپ کے ساتھ ہیں اور پاکستان بنانے اور اس کے تحفظ میں ہم آپ کے ساتھ ہوں گے ۔ آج بھی اس ملک کو لاالہ الااللہ کا ملک بنا دیاجائے تو ان کے دل اب بھی اسلام کیلئے دھڑکتے ہیں ۔ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر میں لگی آگ کو بجھانا ہے۔ یہاں سے فرقہ واریت ختم اور کلمہ طیبہ کی حکمرانی لانا ہوگی’ ہم یہ کام کر لیں تو سب علیحدگی کی تحریکیں بھی دم توڑ جائیں گی اور پاکستان ایک بار پھر سے امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا۔ہمیں اس بات کی بہت زیادہ خوشی ہے کہ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعیدنے اس درد کو محسوس کیا اور ایک ماہ قبل احیائے نظریہ پاکستان مہم کا آغاز کر کے ملک بھر میں اسلامیان پاکستان میں اس حوالہ سے بیداری کی کوششیں شروع کیں جس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امسال 23مارچ پر عوام الناس میں جس قدر جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا ہے’ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ جماعةالدعوة کی اس مہم کا ہی نتیجہ نظر آتا ہے کہ پچھلے آٹھ برسوں سے سرکاری تقریبا ت اور فوجی پریڈ وغیرہ کا سلسلہ جو بندکر دیا گیا تھا۔

Hafiz Mohammad Saeed

Hafiz Mohammad Saeed

ایک بار پھر بھرپور جوش و خروش سے یہ سب کچھ قوم کو دیکھنے کو ملا ہے جس سے سب کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔جہاں تک احیائے نظریہ پاکستان مہم کا تعلق ہے تو حافظ محمد سعید کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ اس تحریک کو مستقل جاری رکھا جائے گااور ملک میں فرقہ واریت اور فکری انتشار ختم کرنے کیلئے وسیع تر اتحاد قائم کیاجائے گا۔ میں سمجھتا ہوںکہ جماعةالدعوة تحریک حرمت رسول ۖ، تحریک حرمت قرآن اور دفاع پاکستان کونسل جیسی کامیاب تحریکیں چلانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے اور پھر سب جماعتیں اللہ کے فضل وکرم سے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوتی ہیں۔ ویسے بھی نظریہ پاکستان کاتحفظ ایک ایسا ایشو ہے کہ نہ صرف تقریبا تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں اس کے حق میں ہیں اورپاکستان سے محبت رکھنے والے سبھی لوگ اس کی ضرورت و اہمیت محسوس کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کے احیائے کیلئے کام ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔جماعةالدعوة کی جانب سے یوم پاکستان کے موقع پر صوبائی دارالحکومت لاہور، اسلام آباد، ملتان، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت پورے ملک میں احیائے نظریہ پاکستان مارچ، جلسوں، کانفرنسوں اور ریلیوںکا انعقادکیا گیاجن میں مجموعی طور پر بلاشبہ لاکھوں افراد نے شرکت کی اور لاہور میں خاص طور پر وہی منٹو پارک(مینار پاکستان) جہاں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی’ وہاںشرکاء کی بہت بڑی تعداد نے ایک بار پھر تجدید عہد کیا کہ وہ نظریہ پاکستان کا تحفظ کریں گے اور اس ملک کو قائد اور اقبال کے خوابوں کو عملی شکل دیتے ہوئے مطابق خالص اسلامی ملک بنانے کی پرامن جدوجہد میں بھرپور حصہ لیں گے۔ اس موقع پر بہت دلفریب منظردیکھنے کو ملا۔

جماعةالدعوة کے کارکنان نے کلمہ طیبہ والے پرچموں کے ساتھ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم بھی اٹھا رکھے تھے جس نے ہر کسی کومتاثر کیا۔اگرچہ اتوار کو پاکستان اور آسٹریلیاکے مابین کرکٹ میچ بھی تھااور احیائے نظریہ پاکستان مارچ اور کرکٹ میچ کا وقت بھی ایک تھا مگر اس کے باوجود عام شہریوں خاص طور پر نوجوانوں کی کثیر تعدا موٹر سائیکلوں پر سوار ہاتھوںمیں پاکستان اور جماعةالدعوة کے پرچم اٹھائے مینار پاکستان سے شاہراہ قائد اعظم تک جگہ جگہ سے مارچ میں شریک ہوکر شرکاء سے عملی طور پر یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔ ٹیکسالی چوک، بھاٹی چوک، ناصر باغ اور پھر لاہور ہائی کورٹ چوک میں وکلاء تنظیموں کی جانب سے جس طرح شاندار استقبال کیا وہ بھی دیکھنے کے لائق تھا۔ وکلاء میں اس لحاظ سے بھی جوش و ولولہ تھا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح جن کی قیادت میں یہ خطہ پاکستان حاصل کیا گیاتھا وہ خود بھی ایک وکیل تھے۔ اسلئے لاہو ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، پیس لائرز فورم، الامہ لائرز فورم، دفاع پاکستان لائرز موومنٹ اور الدعوة لائرز فورم سمیت مختلف وکلاء تنظیموں کے عہدیداران چھٹی ہونے کے باوجود وردیاں پہنے ہوئے کیمپ پر موجود تھے۔

اور جب شرکاء ہائی کورٹ چوک میں پہنچے تو انہوںنے پاکستان کا مطلب کیا’ لاالہ الااللہ کے نعرے لگائے اور شرکاء پر پھولوںکی پتیاں نچھاور کرتے رہے۔امیر جماعةالدعوة حافظ محمد سعید نے احیائے نظریہ پاکستان تحریک کے تین بنیادی مقاصد پیش کئے ہیں’ ان میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستا ن چونکہ اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ دشمنان اسلام اسے اپنے لئے سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے یہاں مسلمانوں کو باہم دست و گریبان رکھناچاہتی ہیں اور فرقہ واریت کو پروان چڑھانا چاہتی ہیں اس لئے گلی گلی’ نگر نگر جاکر لوگوںمیںایک بار پھر 1940والے جذبے پیدا کرنے ہیں اور انہیںلاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ پر متحد کرنا ہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان بن چکا اب اس کو صحیح اسلامی پاکستان بنانا ہے اور یہاں مدینہ والا نظام نافذ کرنے کیلئے بھرپور جدوجہد کرنی ہے۔تیسرا مقصد یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت وہ تمام علاقے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا مگر بھارت نے اس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمانوںکوزندہ رہنے کیلئے ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھاجارہا ہے’ ان کی آزادیوں اور عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے بھرپور آواز بلند کرنی ہے تاکہ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی جاسکے۔مسلمان کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی نہیں کرتے ‘ مگر اپنا حق تو مانگا جا سکتا ہے۔ کشمیر پرانڈیاکا کوئی حق نہیں ہے۔

وہاں کے عوام کسی صورت اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ سلامتی کونسل نے بھی اسے متنازعہ تسلیم کر رکھا ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیںکہ ان کے یہ تینوں نکات درست ہیں ۔ اس تحریک کو عوامی سطح پر جس طرح تیزی سے پذیرائی مل رہی ہے اس کا واضح ثبوت ہے کہ جس طرح یوم پاکستان کے موقع پر احیائے نظریہ پاکستان کیلئے تقریبات کا انعقادکیا گیا اسی طرح سری نگر میںبھی اجتماعات کا انعقادکیا گیا۔ اس سے مظلوم کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کا بھی ثبوت ملتاہے۔احیائے نظریہ پاکستان کے حوالہ سے ملک بھرمیںہونیوالے پروگراموںمیںمقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریائوں پر بنائے جانیو الے غیر قانونی ڈیموں اور انڈیا سے دوستی و تجارت کے حوالہ سے بھی کھل کر بات کی گئی اور تمام مذہبی ، سیاسی و کشمیری جماعتوں کے قائدین نے متفقہ طور پر قرار دیاکہ ان فیصلوںکو کسی صورت قبول نہیں کیاجائے گا۔

Cholistan

Cholistan

یہ ہمارے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے چولستان میں ریت اڑ رہی ہے اور بھارت پاکستان کے پانیوں سے اپنے چولستان اور بیکانیر کو سرسبز کر رہا ہے۔ انڈیا سے اپنے وہ تما م حق واپس لینے کی ضرورت ہے جوتقسیم ہند کے موقع پر طے ہوئے تھے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ قوم کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر متحد و بیدارکریں۔قیام پاکستان کے وقت اگرمسلمانوںنے لاکھوں جانیں پیش کی تھیں تو پاکستان بچانے کیلئے وہ کروڑوں جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔

تحریر: حبیب اللہ سلفی

برائے رابطہ: 0321-4289005