تحریر: عامر نواز اعوان محترم قارئین !انسانی ترقی کا گہرا تعلق صحت کی فراہمی سے ہے ۔امیر غریب سب کیلئے صحت یکساں اہمیت کی حامل ہے ۔صحت کی خرابی میں دو فیکٹر زیادہ متاثر کن ہیں۔ایک غربت اور دوسری لاعلمی ۔سرکاری ہسپتالوں میں سردرد ، بخار وغیرہ کی دواؤں کے علاوہ تو کچھ ملتا نہیں جس وجہ سے باقی دوائیں باہرپرائیویٹ میڈیکل سٹورز سے لینا مجبوری ہو تی ہے اور جس کو غریب آدمی کیلئے لینا مشکل ہوتا ہے۔
اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھ کر لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کر تے ہیں اور جب کہ وہاں پرڈاکٹرز کی بھاری فیسز اور با قی اخراجات حوش اڑادیتے ہیں ۔گو کہ اس بات سے منہ نہیں موڑا جا سکتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میںسرکاری ہسپتالوں کی نسبت لوگوں کو سہولیات زیادہ میسر آتی ہیں اور انہی سہولیات کی بنا پر پرائیویٹ ہسپتالوں میں لوگوں کو بھاری اخراجات برداشت کر نا پڑتے ہیں۔
موجو دہ حالات میں محکمہ صحت میں چاہے پرائیویٹ سیکٹر ہے یا گورنمنٹ سیکٹر سب جگہ اس محکمے کے حالات پولیس کے محکمہ سے بھی بدتر دیکھا ئی دیتے ہیں ۔تھا نہ ،کچہری اور ہسپتالوں میں اگر راج ہے تو پیسے کا ۔کیو نکہ ان تمام جگہوں پر جا نے والا اتنا مجبور ہو تا ہے کہ وہاں پر موجود ڈاکو نما انسان اس کے مسئلے کو کم اور اس کی جیب کو زیا دہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اس میں سب کی بات نہیں کرتا کیو نکہ پانچ انگلیاں برا بر نہیں ہو تیں اسی طرح سارے لٹیرے بھی نہیں ہو تے ، کچھ ہسپتال حقیقت میں لوگوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں لیکن وہ ایک یا دو فیصد۔ میرا اشارہ صرف عوام دشمن عناصر اور اپنے مفادات کو ترجیح دینے والوں کی طرف ہے ۔سرکاری ہسپتالوں کی حالت تو اس قدر مخدوش ہوتی جا رہی ہے کہ جس کو بیان کرنا ہی ممکن نہیں۔
Talagang
ہم تلہ گنگ کے سٹی ہسپتال کو ہی لے لیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تلہ گنگ کی حالت اب قدرے بہتر ہے وہاں پر سہولیات سٹی ہسپتال سے کہیں زیا دہ ہیں۔ کو ئی بھی ادارہ ہو اس کی اہمیت اس کے سربراہ سے بنتی ہے جبکہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تلہ گنگ کی حالت کو بہتر کر نے میں ڈاکٹر زبیر ملک کا بہت بڑا ہاتھ ہے انہوں نے اپنے ایم ایس دور میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تلہ گنگ میں ذاتی دلچسپی لے کر اس کی بہتری کی ۔ جو کہ ہر خاص و عام کو دیکھا ئی دیتا ہے کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کسی نے کام کیا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے ایم ایس ڈاکٹر طا ہر زمان نیا زی سٹی ہسپتال تلہ گنگ کی یہ حالت ہے کہ وہ شائد پہلوا نی کیلئے خود کو تیار کر رہا ہے یا انکا کو ئی اور مشغلہ ہے کیو نکہ اس کو آفس میں سکون کی نیند کر نے یا اپنے معا ملات نمٹا نے سے فرصت ملے تو وہ ہسپتال کی بہتری کیلئے سوچے ۔ ایم ایس کی دلچسپی نہ ہو نے کی وجہ سے مریضوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہسپتال میں اگر کو ئی ایمر جنسی کی حالت میں بھی مریض چلا جا ئے تو سب سے پہلے اس کو بد تمیز قسم کے پیرا میڈیکل سٹاف کا سامناکر ناپڑتا ہے اس کے بعد جب کو ئی ڈاکٹر محترم چیک اپ کیلئے تشریف لا تے ہیں تو وہ ایک لسٹ مریض کے لواحقین کو تھما دیتے ہیں کہ با ہر میڈیکل سٹو رسے یہ دوائیں لے آئیں۔
ڈاکٹر کی طرف سے دی گئی دوائیوں کی لسٹ اور بدتمیز عملہ سے ملاقات کے بعد ویسے بھی مریض کی طبیعت درست ہو جا تی ہے ۔ نہ ہسپتال میں دوا ہے، نہ صفائی ہے اور نہ کسی قسم کی اور سہو لیات اور ساتھ تحفے میں بدتمیز عملہ اور ٹس سے مس نہ ہو نے والا ایم ایس ڈاکٹر طا ہر زمان نیا زی ، بلکہ باوثوق ذرا ئع سے معلوم ہوا ہے کہ ایم ایس کی طرف سے اپنے بدتمیز عملہ کو ہدایات ہیں کہ ہسپتال میں کسی صحا فی کو داخل نہ ہو نے دیا جا ئے یا ان کو کوریج نہ کر نے دی جا ئے۔
ان کے اس حکم نا مے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اگر کو ئی صحافی وہاں گیا اور اس نے ان کی خرافات عوامی عدالت میں رکھ دیں تو ان کی ایک طرف تو جگ ہنسائی ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ پہلوان ایم ایس کو بھی ہسپتال کے معاملا ت میں دلچسپی دینا پڑے گی ۔کیو نکہ عوام کو اب عمران خان نے سڑکوں پر نکلنے اور کرپٹ لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا ڈھنگ سکھلا دیا ہے۔
Dr. Tahir Zaman MS City Hospital
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم ایس نے اس لئے بھی صحافتی برادری کیلئے سٹی ہسپتال میں رکا وٹ ڈالنے کی کو شش کی ہو ئی ہے کیو نکہ وہاں پر ہو نے والی غیر اخلا قی حرکات صحا فی کے کیمرے کی آنکھ میں آسکتی ہیںجیسا کہ کچھ ما ہ پہلے سٹی ہسپتال میں واقعات رونما ہو ئے اور پھر جگ ہنسا ئی ہوئی۔
اور اس کے علا وہ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہاں پر موجود مریضوں کی شکایات کے انبار لگ سکتے ہیں۔ پہلوان ایم ایس سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے، مانا کہ تم گھریلو معاملا ت میں الجھے ہو ئے ہو لیکن ہسپتال میں کام پو ری ایمانداری سے سرانجام دو اور اپنے بدتمیز عملہ کا قبلہ بھی درست کرو نہیں تو عوام نے کسی دن چڑھ دوڑنا ہے پھر گلہ نہ کرنا کہ مست ماحول ایم ایس اور چاپلوس و بد تمیز عملہ کے ساتھ کیا ہو گیا۔
سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ بات کر رہے تھے پرائیویٹ ہسپتالوں کی تو تلہ گنگ میں اس وقت پرائیویٹ ہسپتالوں کے انبار لگ گئے ہیں ۔ جس کی بڑی وجہ سرکاری ہسپتالوں کی لاپرواہی اور سہولیات کی کمی ہے ۔لیکن بد قسمتی کے ساتھ پرائیویٹ سکولوں کی طرح پرائیویٹ ہسپتالوں نے بھی ان ٹرینڈ پیرا میڈیکل سٹاف رکھ لیا ہے۔
جس طرح پرائیویٹ سکولوں میں میٹرک ، ایف اے پاس ٹیچرز رکھنے کا رجحان بہت زیا دہ ہے اسی طرح پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی ایسا سٹاف تعینات کر لیا گیا ہے جو پیر ا میڈیکل کا باقا عدہ ڈپلو مہ نہیں رکھتا ۔ بس چند دن کسی دا ئی ، ما ئی کے ساتھ کام کر لیا ٹیکہ لگا نا سیکھ لیا تو اس کو نو کری دے دی جا تی ہے جو کہ مریض کے ساتھ سرا سر زیا دتی ہے ۔ پرائیویٹ سکولوں کو اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو چاہیے کہ ایسا عملہ تعینات کریں کہ جو اس پوسٹ کے قابل ہو ہر نتھو کھیرا ٹیچر صاحب اور ڈاکٹر صاحب نہ بنا بیٹھا ہو۔
اس بات سے کسی کو ئی اختلاف نہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کی نسبت پرائیویٹ ہسپتالوں میں سہولیات زیا دہ ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں اگر گو رنمنٹ ٹرینڈ لوگوں کو نو کری دیتی ہے تو پرائیویٹ ہسپتالوں کو ایسا کر نا چا ہیے تب جا کر ان کی سہو لیات فا ئدہ مند ثابت ہوں گی۔
Amir Nawaz Awan
تحریر : عامر نواز اعوان aamir.mlaik26@yahoo.com 0300-5476104