ممبئی کے خود ساختہ دھماکوں کے بعد بھارت تسلسل کے ساتھ ہمیں دہشت گرد ریاست ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ممبئی بم دھماکوں اور اب منموہن کی ہرزہ سرائی ”کہ پاکستان دہشت گردی کی نرسری ہے ” کیا اقوام عالم کے فورم پر انڈیا کے خود ساختہ اور کمزور موقف کی پذیرائی کو انڈیا کی جیت قرار دیا جاسکتا ہے ہمارے وزہر اعظم جو انڈیا کے تعلقات کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اُنہیں اب واضح ہونا چاہیے کہ ہندو بنیا اپنی فطرت سے کبھی باز نہیں آئے گا اقوم متحدہ کے فورم پر 28 ستمبر کو منموہن سنگھ نے اپنے الفاط کو جھوٹ کا خوشنما لبادہ خوب انداز پہنایا سکیورٹی کونسل میں اس سے قبل بھی اپنے موقف کا بہتر انداز میں دفاع نہ کر سکنے کو یقینا ہماری ناکامی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ایشیا میں پاکستان کو ہمسایہ ممالک کیلیئے سلامتی کا خطہ کہا جاسکتا ہے جو اپنی آزادی سے لیکر آج تک ہمسائیوں کے امن اور سلامتی کا آئینہ دار رہا ہے ماضی میں سابق بھارتی وزیر خارجہ ای احمد نے اپنی تقریر اور لب لباب سے نیو یارک میں بین الاقوامی سلامتی کولاحق خطرات ” کے موضوع کا ہدف پاکستان کو بنانے کی جس طرح کوشش کی۔
اب منموہن نے جس طرح اُس تسلسل کو برقرار رکھا وہ یقینا اُن پاکستانی حلقوں کیلئے باعث تشویش اور باعث سبق ہے جو بیرونی دنیا کے مختلف فورمز پر وطن عزیز کا مقدمہ لڑ رہے ہیں تب بھارتی نائب وزیر خارجہ نے آج کے بھارتی وزیر اعظم کی طرح اپنے شیطانی منصوبہ کو اپنے موقف کی پذیرائی کی بدولت عملی جامہ پہنایا اور اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر حسین ہارون اُس کا دفاع کرنے اور اپنا موقف منوانے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے ممبئی بم دھماکوں میں 200 انسانی جانوں کا ناحق خون بہا کر سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی گئی یہ ایک ایسا ڈرامہ تھا جس کی ریہرسل کے پیچھے پاکستان دشمن ایجنسیوں ”رااور موساد ”کا مشترکہ ذہن کارفرما تھا اجمل قصاب نام کے ایک شخص کو پید کیا گیا اور اُس کا تعلق پاکستان سے جوڑا گیا ان خود ساختہ دھماکوں میں ایک فرضی نام ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک نوجوان ابو اسماعیل کا استعمال کیا گیا۔
اجمل قصاب کی طرح نادرا ریکارڈ میں ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں اس نام کا کوئی فرد رجسٹرڈ ہی نہ تھا نائن الیون کے خوداساختہ واقعہ کے بعد ہم حالت جنگ میں ہیں آج ہمیں دنیا کے مختلف فورمز پر شدت سے یہ باور کرانا ہے کہ دہشت گردی اور کشمیر میں لڑی جانے والی حق کود ارادیت کی جنگ میں ایک واضح فرق ہے ہمیں اس فرق کو واضح کرنا ہے ہمیں اپنے موقف کے ذریعے خون انسانیت اور خون مسلم کی ازرانی پر عالمی ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والے دہشت گرد ہیں تو آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کا شمار کس صف میں ہوگا منگل پانڈے کی جدوجہد آزادی کا تعین کیا ہوگا 1993 کے ممبئی بم دھماکوں کے پس منظر میں جھانکیں تو واضح نظر آتا ہے کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کیلئے یہ خود ساختہ واقعہ ہوا اس دھماکے کا ملبہ 120 مسلمانوں پر ڈال دیا گیا اور اُن کا تعلق بھی پاکستان سے جوڑنے کیلئے ماسٹر مائینڈ کے طور پر دائود ابراہیم کا نام استعمال کیا گیا جبکہ اُس وقت یہ ثابت ہو گیا۔
Indian Terrorists
دھماکے شیو سینا سے جڑے ہندو چھوٹا راجن نے کرائے تاکہ ان دھماکوں کا الزام لگا کر ممبئی سے مسلمانوں کا اثر و رسوخ ختم کیا جا سکے قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ اس وقت کاروباری حوالے سے اور دیگر اثرورسوخ کے حوالے سے ممبئی مکمل طور پر مسلمانوں کی دسترس میں ہے 1993 کے ممبئی بم دھماکوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہ کی مگر مسلمانوں کو دھر لیا گیا اس وقت بھی 37 مسلمان بغیر کسی مقدمہ کے ممبئی کی آرتھرو جیل میں بند ہیں 12 ستمبر 2006 ء جب بھارت کی بدنام زمانہ ٹاڈا عدالت کا جج پی ڈی کوڈے 1993 کے بم دھماکوں کا فیصلہ سنا رہا تھا تو ان دھماکوں کے الزام میں گرفتا ایک مسلمان یعقوب میمن نے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے تھے ”سب ڈرامہ چل رہا ہے بے قصور لوگوں کو سزادی جارہی ہے بھارت میں ہمیں دہشت گرد بنایا جا رہا ہے ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہم گزشتہ کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیسے بے گناہ مسلمانوں پر آتنگ وادی ہونے کا لیبل لگایا جارہا ہے جب ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو اسی منموہن سنگھ نے 1993 کے ممبئی بم دھماکوں کی آڑ میں آج کی طرح جی ایٹ ممالک کی کانفرنس کے پلیٹ فارم پر بھی زہر اُگلا تھا اور اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی تب بھی اُس وقت کی ہماری حکومت کی کمزوری سامنے آئی اور وطن عزیز کا مقدمہ مضبوط موقف کے ساتھ نہ لڑا جاسکا۔
مارچ 2007 ء میں لاہور اور دہلی کے مابین چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی کئی بوگیاں نئی دہلی سے سو کلومیٹر دور پانی پت کے قریب دیوانہ ریلوے اسٹیشن پر بم دھماکوں سے اُڑا دی گئی جس کے نتیجے 67 پاکستانی موت کا نشانہ بنے ممتاز بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اسے ہندو انتہا پسندوں کی کارروائی لکھا ہریانہ کے وزیر داخلہ اور آئی جی پولیس نے بھی کہا کہ پاکستان دشمن انتہا پسند ہندوئوں کا اس کارروائی میں ہاتھ ہے جنہوں نے مٹی کے تیل، سلفر، اور پوٹاشیم نائیٹریٹ کا آمیزہ استعمال کیا اور آگ لگانے والے یہ بم ٹرین کے اندر چھپا کر رکھے تھے مگر اس واقعہ کے اصل دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے تین مسلمانوں کو گرفتار کر لیا گیا اور افسوسناک امر یہ کہ تین پاکستانی مسافروں کو بھی تفتیش کے نام پر تارچر کیا گیا 1993ء کے ممبئی بم دھماکوں کی مشترکہ تحقیقات کو رد کر دیا گیا اور جب سمجھوتہ ایکس پریس کے سانحہ کی مشترکہ تحقیقات کیلئے پاکستان نے اصرار کیا تو نہ صرف مشترکہ تحقیقات سے انکار کر دیا گیا بلکہ پاکستانی ٹیم کو جائے حادثہ کا معائنہ تک نہ کرنے دیا گیا۔
مہارا شٹر کے مالیگائوں میں شدت پسند ہندوئوں نے 49 مسلمانوں کو بم دھماکوں سے شہید اور 257 کو زخمی کیا تو گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں اور بھارت کے سیکولر ہونے کا نقاب اس طرح اُترا کہ 1993 ء کے ممبئی بم دھماکوں میں مرنے والے ہندو ورثاء کے لواحقین کو پانچ لاکھ فی کس دیئے گئے جبکہ مالی گائوں کے مسلمان شہداء کے لواحقین کو پچاس ہزار فی کس دینے کا محض اعلان کیا گیا ایس پی راج وردھن نے 6 اپریل 2006 کو بجرنگ دل کے ایک دہشت گرد رام لال کے گھر پر چھاپہ مارکر تباہ کن بارود، نقلی ڈاڑھیاں اور مسلمان عورتوں کے پہننے والے برقعے برآمد کیئے مالی گائوں کے بم دھماکوں میں بھی ایک ایسے شخص کی لاش ملی جس نے نقلی ڈاڑھی لگا رکھی تھی وہاں کے ایک مسلمان محمد عقیل کا کہنا تھا کہ جب اُس نے لاش اُٹھا ئی تو ڈاڑھی الگ ہو کر زمین پر گر پڑی جو اُس نے موقع پر پولیس کو دکھائی آج منموہن کی زبان مسلمان ریاست کے خلاف زہر اُگل رہی ہے مگروہ یہ بھول گئے کہ بھارت میں مسلم کش فسادات کے تسلسل کا آغاز تو ہندوئوں نے آزادی ملتے ہی کر دیا تھا جس کی روک تھام کیلئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بھارت کا دورہ کیا۔
Pakistan
جہاں اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ ”لیاقت نہرو ”معاہدے کے تحت نھارت اور پاکستان میں موجود اقلیتوں کے تحفظ کے اصول و ضوابط طے کرلیئے گئے دونوں حکومتیں اقلیتوں کے حقوق اور ذات کے تحفظ کی ذمہ دار قرار پائیں اس لیاقت نہرو معاہدہ کے بعد آج تک پاکستان میں اقلیتوں سے زیادتی یا اُن کے حقوق سے صرف نظر کا کوئی ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا لیکن بھارت میں ابھی اس معاہدے کی سیاہی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ مغربی بنگال میں مسلم کش فسادات شروع ہو گئے جن میں 311 مسلمان شہید ہوئے مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور میں 50 مسلمان شہید اور سینکڑوں زخمی کردیئے گئے ،بہار کے شہر پٹنہ اور گیا میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں 150 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا 1957 میں علی گڑھ اور میرٹھ میں 200 اور 1962 میں 1000 مسلمان شہید ہوئے یہ اعداد و شمار بھارتی حکومت کے جاری کردہ ہیں اصل شہادتیں اور نقصان اس سیکہیں زیادہ ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ محمد اسحاق سنبھلی کے مطابق ”نہرو لیاقت ” معاہدے کے بعد 7500 مسلم کش فسادات ہوئے مسلم انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت نے 646 مساجد کو نمازیوں کیلئے بند کر رکھا ہے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ نیوی پلے نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ”مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل سینکڑوں لوگوں پر تشدد اور اُن کی گرفتاریوں پر گہری تشویش ہے اور ایسے اقدامات واضح طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں جنوری 1989 سے 10 دسمبر2008 تک کے ریکارڈ میں 92689 کشمیریوں کو شہید کیا گیا جبکہ 9846 مسلمان خواتین کی آبرریزی کی گئی اندیا کی یہ ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ اپنی ناکامیوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔
منموہن سنگھ پاکستان کو تو دہشت گردی کی نرسری کہہ رہا ہے مگر مگر اُس کے 160 اضلاع کے 92 ہزار مربع میل پر قابض علیحدگی پسند وہ قوتیں بھول گئیں جو صوبہ مہاراشٹر، آندھرا پردیش، اڑیسہ، جھاڑ کھنڈ، چھتیں گڑھ، مغربی بنگال، آسام، بہار میں حکومتی مظالم سے تنگ علیحگی کی تحریک چلا رہے ہیں ان اضلاع میں پانچ برسوں کے دوران 11000افراد کو قتل کیا گیا اور یہ وہ افراد تھے جو علیحدگی پسند تحریکوں کے رکن تھے من موہن سنگھ کی تعصب پر مبنی تقریر کا پس منظر کھوجا جائے تو اس کے تانے بانے اُس دور سے جاکر ملتے ہیں جب مشترکہ جدوجہد آزادی میں شامل مسلم رہنمائوں نے ہندو ذہنیت اور تنگ نظری کو محسوس کرتے ہوئے بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کی تھی پاکستان کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ بھارت نے اُس وقت شروع کر دیا۔
جب یہ مملکت خداداد معرض وجود میں آئی بھارت نے جہاں مائونٹ بیٹن سے ملکر پاکستان میں شامل ہونے والے علاقے بھارت میان شامل کروا کر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی وہاں پاکستان کے حصہ میں آنے والا سرمایہ اور اسلحہ بھی روک لیا صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ قیام پاکستان کے بعد کشمیر پر قبضہ کرکے جنگ مسلط کردی 1971 میں بھارتی فوج کو مکتی باہنی کے روپ میں مشرقی پاکستان کے خلاف جارحیت کیلئے بھیجا جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا یہی نہیں من موہن سنگھ کے سامنے جب بلوچستان میں انڈیا کی مداخلت کا سوال اُٹھایا گیا تو بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے اس موقف کی بھی نفی کی جبکہ پاکستانی قیادت نے کنٹرول لائن پر ہونے والے واقعات پر اقوام متحدہ کی ثالثی کی بات کی تو من موہن سنگھ اُسے بھی ماننے سے انکاری ہو گئے مسلم لیگ ن کی حکومت کو جان لینا چاہیئے کہ ہمیں ایشیا میں ایک ایسے کھیل کو روکنا ہے جس میں بھارت اپنی بالا دستی کیلئے مسلسل اپنے پتے پھینک رہا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے طاقتور موقف کی بدولت عالمی فورمز پر سرخرو ہونگے۔