خونی آندھیاں اُٹھ رہی ہیں، جابجا تباہی وبربادی کی خونچکاں داستانیں رقم ہورہی ہیں اور کوچہ وبازار میں ایک عجیب افراتفری کا عالم ہے ۔لوگ جھولیاں اٹھا کر ملکی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن مستعجیب کے ہاں ہماری دعائیں بھی مستعجاب نہیں کہ ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں اور ہم اصلاح کے لیے تیار بھی نہیں ۔اگر کہا جائے کہ رَبّ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو کہتے ہیں کہ امریکہ تو نظر آتاہے مگر (نعوذباللہ) رَبّ کی رَسّی نظر نہیں آتی ۔کہا جائے کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے
قُرآن آئین کی مستند ترین کتاب کہ یہ اُسی حاکمِ اعلیٰ نے تصنیف کی ہے جو ہمارا خالق بھی ہے اور مالک بھی ،تو کہتے ہیں کہ انسان آسمان کی وسعتوں کو چیر چکا ، ستاروں پہ کمند ڈال چکا ،چاند مسخر ہوچکا لیکن یہ رجعت پسند ابھی تک زمین پر رینگ رہے ہیں ۔پتہ نہیں یہ کِس قسم کے لوگ ہیں کہ جن کی فصیلِ فہم سے کوئی منادی ،کوئی صدا ،کوئی آواز ٹکراتی ہی نہیں ۔دِلوں پہ مہریں لگ چکیں ،کان بہرے اور آنکھوں پر پردے پڑ چکے۔
چلیں ہماری نہ سنیں ،تاریخ کا مطالعہ ہی کر لیں ،مشرکینِ مکہ کا حال ہی جان لیں تاکہ فیصلہ تو ہوسکے کہ امان کِس نظام میں ہے۔ فسق وفجور میں ڈوبے ،بچیوں کو زندہ دفن کرتے ،مٹکوں میں شراب پیتے ،معمولی باتوں پر قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ،غلاموں پر بے پناہ تشدد کرکے قہقہے لگاتے مشرکینِ مکّہ ۔پھر نور کی کرنیں پھوٹیں ،آقاۖ تشریف لائے ،اللہ کا آئین اُترا ،اسلام پھیلا اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب زیور سے لدی پھندی ایک عورت تنہا مکّہ سے مدینہ تک سفر کرتی ہے اور راستے میں کوئی چور ،ڈاکو نہ لُٹیرا۔ ذرا آج کے معاشرے کا قبل از اسلام کے مشرکین سے موازنہ تو کیجئے ،آپ کو جدیدیت کالبادہ اوڑھنے والی، اپنی ترقی پہ نازاںیہ دُنیااپنے اعمال وافعال میںاُن وحشی قبائل سے کہیں آگے نظر آئے گی ۔کونسا گناہ ہے
جو اِس معاشرے میں پنپ نہیں رہا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا انسان ارتقائی منازل طے کر رہاہے یا پھر پتھر کے زمانے میں لوٹ رہاہے؟۔ رجعت پسند کون ہے ؟۔ہم یا وہ جو لبرل ازم کی آڑ میں ہر برائی کے حق میں دلائل تراش لیتے ہیں ۔آئین کی اسلامی شقوں پر ناک بھوں چڑھانے والے اور آرٹیکل 62/63 پر ضیاء الحق مرحوم کو کوسنے والے ،سیکولر نظریات کے حامل اگر اِن آرٹیکلز سے لفظ ”اسلامی”نکال کر دُنیا کے دساتیر سے موازنہ کرکے دیکھیں تو سرِمو فرق بھی نظر نہیں آئے گا
Minar e Pakistan
البتہ یہ فرق ضرور کہ اگر عالمی برادری کا کوئی فرد اِن ضابطوں پر عمل نہیں کرتا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہوجاتا ہے جبکہ ہم نے اپنی اسمبلیاں ایسے ہی لوگوں سے بھر لیں اور اب کہتے ہیں کہ مجبوری ہے ،اگر 62/63 پر عمل کردیا گیا تو اسمبلیوں میں اُلّو بولنے لگیں گے ۔یہی باتیں جب امیرِ جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں سجائے گئے اجتماعِ عام میں کہیں تو مجھے خلفائے راشدین کادَور یاد آنے لگا ۔جماعتِ اسلامی سے میرا ناطہ اُس وقت سے ہے جب میں محض ایک سٹوڈنٹ تھی ۔تَب سے اب تک یہ جاننے کے باوجود کہ اقتدار کے ایوان ابھی جماعت سے دُور ،بہت دور ہیںکیونکہ جماعت اسلامی کی ساری توجہ شہروں پر مرکوز ہے جبکہ 70 فیصد ووٹر دیہاتوں میں رہتے ہیں جہاں جماعت کا ”وَرک ”نہ ہونے کے برابر ہے اور موجودہ جمہوری نظام میں کوئی بھی جماعت اُتنی دیر تک اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اُس کا اثرورسوخ دیہاتوں میں نہ ہو۔یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میرے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی کیونکہ اپنا تو عقیدہ بقولِ اقبالیہ ہے کہ مِلّت کے ساتھ رابطہ ٔ استوار رکھ پیوسطہ رہ شجر سے ،اُمیدِ بہار رکھ
میں اجتماع کے تینوں دِن باقاعدگی سے مینارِپاکستان جاتی رہی۔ مینارِ پاکستان پر پاکستان کی تاریخ کا خواتین کا سب سے بڑا اجتماع دیکھ کر میرے وجود میں خوشی کی لہریں مَوجزن ہوگئیں ۔اِس اجتماع کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں انتہائی پاکیزہ ماحول میں اللہ اور اللہ کے رسولۖ کی باتیں ہی ہوتی رہیں ۔جب امیرِ محترم نے اپنی زندگی کی کٹھن راہوں کا ذکر چھیڑا تواِہلِ دِل کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔
میں تَب بھی یہی سوچ رہی تھی کہ ہم چودہ سو سال کی ساری تاریخ فراموش کر چکے ۔ہم بھول چکے کہ خندق کھودتے وقت ایک صحابی آقاۖ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا کہ مارے بھوک کے اُس نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے ۔آقاۖ مسکرائے اور اپنا ”کُرتہ”تھوڑا سا اوپر اٹھادیا ،پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔ہم بھول چکے کہ خواتینِ جنت کی سردار حضرت فاطمہ بنتِ رسولۖ کے ہاتھوں پر چکّی پیستے پیستے آبلے پَڑ جاتے تھے ۔ہم بھول چکے کہ امیر المومنین حضرت عمر کو اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے اپنے بیٹے سے چادر مستعار لینی پڑی ۔ہم بھول چکے کہ جب قیصرِروم کا ایلچی حضرت عمر کے پاس آیا تو اُس وقت حضرت عمر مسجدِ نبوی کی چٹائی پر سورہے تھے
لیکن اب زمانہ بدل چکا ،اب تو سلطانیٔ جمہورہے ،ایسی سلطانیٔ جمہور کہ جس میں سلطان مسرور اور جمہور مجبور و مقہور ۔اب تو قیصر و کسریٰ کی طرح ہمارے رہنماؤں کے بھی ایکڑوں پر پھیلے محل ،بُلٹ پروف گاڑیاں اور قطار اندر قطار حفاظتی دستے ہیں شاید اسی لیے لوگوں کو امیرِ محترم کی باتیں عجیب لگیں کیونکہ اُن کے نزدیک تو رہنما وہ ہوتا ہے جس کی آمد سے گھنٹوں پہلے ٹریفک بند کر دی جاتی ہے ،بھلا وہ شخص کیسے رہنماء ہوسکتاہے جو فُٹ پاتھوں پر سوتا رہا ہو۔
بہرحال یہ تو طے ہے کہ بے کسوں ،بے بسوں کے درد سے آشنائی تو اُسی کو ہوسکتی ہے جس نے زندگی کے کئی ماہ وسال فُٹ پاتھ پر گزارے ہوں ،صبح سکول گیاہو اور شام کو مزدوری کی ہو ،سکول اور کالج کی فیس نہ ہونے کا درد سہا ہو ۔باتیں تو سبھی سچ تھیں اور ہیں کہ آج بھی خطِ غربت سے نیچے بسنے والوں کو انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جِن سے امیرِ محترم گزرے ہیں لیکن جو لازمۂ انسانیت سے خالی ہو وہ بھلا اِس درد کو کیا جانے۔