تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ملک بھر کی تقریباً سبھی بڑی مقتدر سیاسی جماعتوں میں لبرلزم اور سیکولرزم کے مقابلے جاری ہیں آپس کی اس دوڑ میں ہر سیاسی پارٹی کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے آپ کو جتنا زیادہ سے زیادہ اسلام سے دور اور لبرل سیکولر موقف کے قریب کر سکے اتنا ہی بہتر ہو گا کہ پھر سامراجی ممالک خصوصاً امریکی مقتدر حضرات ان کی طرف نظر التفات سے دیکھیں گے اور شاید وہ زیادہ پسند آجائیں اور اقتدار کا ہمار ان کے سر پر بٹھانے کا انتظام و انصرام وہ (سیکولر لبرل سامراجی، یہود و نصاریٰ کی پیروکار اسلام دشمن قوتیں وگروہ) کر ڈالیں۔
عمرانی جلسوں میں خواتین ڈانس “اج میرا عمران خان دے جلسے وچ نچن نوں جی کردا ” جیسے گانے بجانے کا خصوصی انتظام کیا جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ بھی پرانے مہربان رشتہ داروں یہودو نصاریٰ کی خواہشات کے مطابق اپنے آپ کو پیش کرکے ان کی نظر کرم کے خواہاں ہیں پی پی نے اپنے سات روزہ یوم تاسیس جسے وہ دور دراز سے لو گوں کو لاہوری بلاول ہائوس میں جمع کرکے روزانہ بلاول کا خطاب کرواتے رہے ہیں ۔بلاول نے تھوڑا ہی عرصہ قبل فرمایا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم کوئی اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والا بن جائے ان کے نانا بھٹو نے جو متفقہ آئین 1973میں بنوایا تھا اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ملک کے صدر اور وزیرا عظم ہمیشہ ہی مسلمان ہوں گے۔اور اب یوم تاسیس پر خود آئندہ وزیر اعظم بننے اور ابو کو صدر بنانے کا اعلان کیا ہے۔بھٹو کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کی مشترکہ قرارداد بھی 7ستمبر1974کو پاکستان کی اسمبلیوں نے منظور کی پھر ن لیگ نے بھی اپنے آپ کو امریکنوں و دیگر غیر مسلم ممالک کی نظر میں لبرل شو کروانے کے لیے اسلام آباد یونیورسٹی میں پاکستانی سائنسدان عبدالسلام کے نام کی فزکس چئیر قائم کرکے اس کے نام کے سکالر شپ بھی جاری کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔
یہ خیال ن لیگیوں کو درجنوں سالوں بعد کیوں آیا ۔ان کو اُس دور میں نوبل انعام فزکس کے ماہر کے طور پر دیا گیا ہو گا۔ان کی زیادہ مقبولیت اور قبولیت بیرونی سامراجی قوتوں کو اس لیے ہوئی کہ وہ سکہ بند قادیانی تھے کسی مسلمان کو تو وہ کیا کبھی نوبل پرائز دیں گے ؟ کہ ایں خیال است و محال است و جنوں ن لیگ مزید ٹرمپ کارڈ ضرور کھیلے گی تاکہ سامراجی اس کی ڈوبتی کشتی کو کسی طوربچا سکیں ۔ بلاول ہائوس میں آخری روز تو مکمل میوزیکل کنسرٹ تھا خوب ہلہ گلہ ہوااور خصوصی ناچ گانے کی محفل کے لیے ساز ندے ،گوئیے اور نچئیے اکٹھے کیے گئے تھے ۔ ہندو بنیے روزانہ بھارتی کنڑولڈ علاقے مقبوضہ کشمیر میںمعصوم نوجوانوںکے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں اور پاکستانی بارڈر پر بزدلانہ حملوں اور گولوں کی بارش کے ذریعے فوجی جوانوں اور سویلین افراد کی قتل و غارت گری میں مشغول ہیں اور ہماری نام نہاد سیاسی لیڈر شپ اِنہی دنوں میں بند قلعہ نما عمارتوں اور تاسیسی جلسوں میں ناچ گانے کرواکر مدہوشی میں مشغول ہیں ۔بھلا ایسے افراد یا پارٹیاں آئندہ دوبار ہ مقتدر ہوجانے کا سوچیں تو الامان و الحفیظ۔پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے ہم پاکستانی تو ستر سال قبل وطن بننے پر مائوں بہنوں بیٹیوں بیٹوں کی لاکھوں قربانیاں ضائع ہونے پر تلے ہوئے ہیں اور پاکستان بنائے جانے کے بنیادی نعرے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کی ہی نفی کر رہے ہیں یہ سب کچھ دستور پاکستان اور 73کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے جس میں واضح کی گیا تھا کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکے گا۔
Sindh Government
سود پر پابندی ہوگی اور شراب پینا حرام ہوں گے ۔مگر پی پی پی کی سندھ حکومت نے تو ہائیکورٹ سندھ کے شراپ پر پابندی کے حکم کی دھجیاں بکھیر ڈالی ہیں اور شراب کھلے عام پابندی کے باوجودحکمران طبقات کی شاید نگرانی میں ہی بک رہی ہے۔پھر سندھ اسمبلی کی وہ قرارداد جو غیر اسلامی ہی نہیں غیر آئینی بھی ہے جس کے ذریعے اٹھارہ سال سے قبل کوئی مسلمان ہونا ہی ڈکلئیر نہیں کرسکتا۔اگر کوئی کسی دوسرے مذہب کو چھوڑکر مسلمان ہو جائے تو اس کی اولادیں اٹھارہ سال کی عمر سے پہنچنے سے قبل مسلمان نہیں ہو سکتیں۔اس سے سندھ میں بسنے والے لاکھوں ہندوئوں و دیگر اقلیتوں کو راضی کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے مگر اسلام کے بنیادی اصولوں کی واضح پامالی کرڈالی گئی ہے۔
حالانکہ اسلامی اصولوں اور آئین پاکستان کے مطابق اقلتیوں کو شخصی و مذہبی آزادیاں ہیں دوسر ی طرف بھٹو دور میں جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا گیا و دیگر اسلامی اقدامات کیے گئے جسے مسٹر بلاول اپنے نانا ابو کی طرف سے ملائوں کے پریشر پر ایسا کیا جانا سمجھتے ہیں یہ سب کچھ نئے سیاسی میدان کے پہلوان ٹرمپ و دیگر یہود و نصاریٰ حکمرانوں اور سامراجی گماشتوں کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں قوم وہ وقت آج تک نہیں بھولی کہ جب ن لیگی حکمرانوں نے بھی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی مشترکہ دوڑوں کا انتظام کیا تھا جس میں ہاف شرٹس اور ہاف کچہھا نما پاجاموں کاا ستعمال بھی ضروری تھا اور جو سکول یاکالج کی لڑکی اس دوڑ میں شامل نہ ہو گی اس کا داخلہ خواتین سکول یا کالج سے خارج کرڈالنے کی دھمکی کی تلوار بھی سر پر لٹکائی گئی تھی۔
یہ سب سامراج کی تابعداریاں ہیں اور آئین سے بغاوت کرنے اور دفعہ چھ کے تحت واجب گردن زدنی ہیں پھر بلاول کا یہ ٹویٹ قوم کیسے بھولے گی کہDance Sindh Dance while u can ناچو سندھ ناچو جب تک تم ناچ سکتے ہو۔جو سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے سندھ میں ناچ گانے پر پابندی لگانے کے نوٹس کا منسوخ کرنے پر جاری کیا گیاتھا۔نئے سیاسی راہنمایان ان خواہشات کے تحت ملک کو مغرب زدہ سیکولر بنانے کے لیے کوشاں ہیں مگر ان کا خواب شاید شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا کہ دنیا کے اصل حکمران خدائے عزو جل ان کی ایسی حرکات کی بنا پر لازماً ان سے اقتدار مستقل چھین کر اپنے بندوں کے سپرد کرڈالیں گے اور ملک اسلامی فلاحی مملکت بن کر رہے گا۔