تحریک آزادی کشمیر

Pakistan

Pakistan

کسی بھی قوم کی بقاء، سلامتی اور تحفظ کے لئے اس کے نظریہ کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے اور یہ نظریہ ہی در اصل وہ بنیاد ہوتا ہے جو مختلف مفادات اور مختلف شناختوں کے حامل افراد کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے لیکن جب کسی بھی قوم میں اس کے نظریہ کی اہمیت کم کر دی جائے تو اس قوم کو اندر یا باہر سے توڑنا اور پھاڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے چاروں صوبوں کی عوام، بشمول کشمیر، گلگت، بلتستان اور فاٹا وزیرستان۔ سبھی میں بسنے والے انسانوں کو جس چیز نے باہم جوڑ رکھا ہے وہ مفادات کی سیاست نہیں بلکہ دراصل وہ نظریہ پاکستان ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے کہ جس پر تحریک پاکستان چلی اور پاکستان بنا اور اسی پر آج کشمیر کی تحریک میں قربانیاں اور شہادتیں پیش کی جارہی ہیں۔ لیکن ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آج پاکستان کو اندر باہر سے پھاڑنے کی سازشیں کرنے والے منصوبہ ساز، پاکستان کی حفاظت سے متعلقہ ان دو بنیادوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں جو پاکستان کی سالمیت میں مرکزی کردار کی حامل ہیں۔ ایک نظریہ پاکستان یعنی لا الہ الا اللہ اور دوسری اس کی شہ رگ یعنی کشمیر۔ وہ دونوں میں ایک تعلق اور ایک مناسبت محسوس کرتے ہوئے دونوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک کا تعلق پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور دوسری کا تعلق جغرافیائی اساس سے ہے جبکہ حقیقت بات یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کی بقاء دفاع کے لیے دونوں ہی کا تحفظ باہمی طور پر لازم و ملزوم ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اس بات کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی بھی طرح سے پاکستان کی اسلامی شناخت کو متاثر کر دیا جائے اور تاریخی حقائق سے پہلو تہی بلکہ بددیانتی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کی عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان تو اسلام کے نام پر نہیں بنا اور شاید تحریک پاکستان چلانے اور پاکستان بنانے والوں نے اسلام کا اور لا الہ الا اللہ کا جو نعرہ لگایا تھا اور جو قربانیاں پیش کیں تھیں وہ سب کچھ غلط تھا۔ آج ایسے لوگوں کو پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے نام میں اسلام سے اور پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں شامل اسلامی دفعات سے شدید پریشانی ہے۔ قرآن و سنت سے بے بہرہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آج جدید دور اور جدید نسل ہے اس لئے اب پاکستان میں اسلامی تعلیمات کی گنجائش نہیں اور اب پاکستان کو کچھ سیکولر بھی ہونا چاہیے۔ صرف اسلام ہی کیوں بلکہ یہاں تو دیگر مذاہب کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

اب یہاں ہندومت، عیسائیت اور قادیانیت کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کو پاکستان کے آئین میں قادیانیوں کے آئینی کافر ہونے پر بہت زیادہ تکلیف ہے، اس لیے وہ آئینی ڈھانچے میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے لیے ابتدائی طور پر پاکستان کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں سے اسلامی اقدار کو نکلوا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کو مغربی طرز پر مادر پدر آزاد بنانے اور فری سیکس ایجوکیشن کے لئے مغربی این جی اوز کی طرف سے بڑے بڑے فنڈز دیے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی اسلام دشمن قوتیں، پاکستان کی اسلامی شناخت کو نقصان پہنچانے کے لیے مختلف این جی اوز کے علاوہ پیس سٹڈی کے نام پر مختلف تھنک ٹینکس کا کو ر (Cover) لے کر اپنی ایسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کا پاکستانی آئین بھی اجازت نہیں دیتا۔ وہ مختلف پہلوئوں سے پاکستانی معاشرے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بیہودہ پروپیگنڈوں پر مشتمل رپورٹس تیار کر کے مغربی ممالک کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس کو بھیجتے ہیں اور پھر وہاں سرکاری سطح سے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈوں اور حکومت پر غیر ملکی دبائو کی صورت میں ایک نیا پلندا سامنے آجاتا ہے۔ آج ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت یہ سب کچھ صرف نظریہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جدید دور اور جدید نسل کی منطق بیان کر کے بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کے نام پر پاکستان میں سیکولرازم کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور بظاہر جدت لانے کے نام پر اسلام سے بھی زیادہ قدیم مذاہب عیسائیت اور ہندومت کو نصاب تعلیم سمیت مختلف سطح پر پروموٹ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔

Allah

Allah

سوال یہ ہے کہ یہ سبق آج میرے ملک کے اہالیان کو اور ان کے ارباب اختیار کو کون پڑھا رہا ہے۔ یہ کون ہے جو دوست نما دشمن بن کر بیوقوفی اور جہالت کو سمجھداری و عقل مندی کا روپ دلانے میں کامیاب ہونے کی منظم کوششیں کر رہا ہے۔ کیا ادیان کی تاریخ میں اسلام سب سے جدید نہیں؟ کیا عیسائیت اور ہندو مت، اسلام سے یعنی دین محمدۖ سے پہلے کے مذاہب نہیں جبکہ اسلام ہی تو وہ دین ہے جو نہ صرف سب سے زیادہ جدت کی معتدل اور متوازن تعبیر پیش کرتا ہے بلکہ نئی سے نئی ٹیکنالوجی دریافت کرنے اور اسے استعمال کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا وآخرت میں کامیابی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو ماننے سے اگر مل سکتی ہوتی تو اللہ رب العالمین اپنے پاک کلام میں کبھی یہ نہ فرماتے : ( وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ) ]آل عمران:٨٥[

ترجمہ: ” اگر کسی نے اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین کو مان لیا تو وہ اس سے کبھی قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔” حقیقت یہ ہے کہ ان سازشوں کے حوالے سے بظاہر سامنے چہرے اور نام جو بھی ہوں مگر پیچھے وہی قوتیں کارفرما ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ائمة الکفر بولتا ہے یعنی یہود و نصاریٰ اور ہندو مشرکین کہ جن کا مقابلہ کرنے اور جن کی سازشوں سے بچنے کا حکم اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے۔ فرمایا : (وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتِھُمْ) ] سورہ بقرہ: ١٢٠[
ترجمہ :” یہود و نصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کی ملت کی ہی پیروی کرنے لگ پڑو۔”

پاکستان کو نظریاتی طور پر نقصان پہنچانے والے لوگوں کو پہچاننا کوئی مشکل نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان پر ڈرون برسا کر خودکش حملے کروانے والے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کے بل اپنی کانگرس سے منظور کروانے والے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک طرف پاکستان کو بنجر بناتے ہیں تو دوسری طرف اپنی اشیاء پاکستان کو فروخت کرنے کے لیے کشمیر کو مائینس کر کے پاکستان کو اپنے ساتھ تجارت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستانی میڈیا کو اشتہارات اورپروگرامز کے ذریعے خرید کر اسلامی اقدار کے خلاف پروپیگنڈہ کمپین چلاتے ہیں اور بعض پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو بڑے بڑے فنڈز کا لالچ دے کر ان سے نظریہ پاکستان کے خلاف ” چل پڑھا” جیسے پروگرام کرواتے ہیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان بنانے کی شہرت رکھنے والی جماعت مسلم لیگ بھی اب انہی کے پیش کردہ ایجنڈے پر آمادہ ہوا چاہتی کیا بلکہ آمادہ ہو چکی ہے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے ایک مغربی این جی او سے چند ملین ڈالر کی وصولی کے عوض نوجوان نسل کو اپنے ملک کے مطالعہ سے محروم کر دیا گیا ( یعنی مطالعہ پاکستان کو نصاب تعلیم سے نکال دیا گیا) گویاکہ یہ تو بالکل ایسے ہے کہ اے انگریز سرکار ! تم ہمارے کشکول میں ڈالروں کی کچھ بھیک ڈال دو، اس کے عوض ہم تم سے وفاداری کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اپنے ملک کے مطالعہ سے روک دیں گے ۔غور طلب بات ہے کہ کیا ہم اس کو اپنے ملک سے وفاداری کہیں گے یا اپنے ملک سے غداری ؟ پنجاب حکومت کی طرف سے اتنے گھٹیا اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ چند ٹکوں کی خاطراہل پاکستان کو ان کے مادر وطن کے نظریاتی،تاریخی اور جغرافیائی پہلو جاننے سے روک دیا جائے اور نہلے پہ دہلا یہ کہ پھر یہ پروپیگنڈہ کروادیا گیا کہ مطالعہ پاکستان میں تاریخ کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ عجیب بات ہے، اگر بالفرض تسلیم بھی کر لیا جائے کہ واقعی مطالعہ پاکستان کی ٹیکسٹ بک میں ایسی تاریخی غلطیاں تھیں تو ان کو درست بھی تو کروایا جا سکتا تھا لیکن یہ کیا ہوا کہ سرے سے اس اہم ترین مضمون کو ہی نکال دیا گیا۔

Kashmir

Kashmir

مسلم لیگی حکومت کے ایسے کارناموں سے کچھ یوں محسوس ہوتا جا رہا ہے کہ موجودہ مسلم لیگی قیادت کو یا تو نظریہ پاکستان کا علم ہی نہیں اور اگر علم ہے تو پھر اس سے مکمل طور پر انحراف کرتی جا رہی ہے۔ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ بانی پاکستان و مسلم لیگ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر پاکستان کی سا لمیت کے لیے کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا اور پاکستانی قوم کو سمجھایا تھا کہ اگر تم نے اپنا ملک بچانا ہے تو اپنی شہ رگ کو دشمن کے نرغے سے چھڑانا ہو گا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ان سارے تاریخی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور مسئلہ کشمیر سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے یک طرفہ طور پر بھارت سے تجارت کے معاہدات کر لئے گئے۔ اس کا مقصد تو واضح طور پر کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانا اور اہل پاکستان کی ذہن سازی کرنا ہے کہ پاکستان اب کشمیر کے متعلق سوچنا چھوڑدے اور یہ کہ اب پاکستان کو کشمیر چھوڑ کر بھی بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہیں۔دراصل یہی تو وہ بھارتی پھندا تھا جس کو ہمارے حکمران سمجھ ہی نہ سکے۔

در حقیقت اسلام و پاکستان دشمن قوتوں نے اب یہ بھانپ لیا ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی سے نظریہ پاکستان یعنی لا الہ الا اللہ کو تقویت مل سکتی ہے۔ جس سے یہود و نصاریٰ و ہندو مشرکین کے ایجنڈے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آج جب کشمیر کے لال چوک میں یہ نعرہ لگتا ہے کہ کشمیریوں سے رشتہ کیا… لا الہ الا اللہ تو آج بھی انہی انگریزوں اور ہندوؤں کو موت پڑتی ہے جن کو تحریک پاکستان کے نتیجے میںپاکستان کے معرض وجود میں آنے پر شدید تکلیف ہوئی تھی، اسی لئے آج بھی وہی انگریز اور ہندو، نظریہ پاکستان اور کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک تعلق محسوس کر کے دونوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تحریک پاکستان کے نتیجے میں مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد کر کے پاکستان میں لا کر بسایا اور پھر شروع دن سے ہی پاکستان کی سا لمیت اور معاشی خوشحالی کو” کشمیر ”کے ساتھ منسلک کر دیا ۔ اس اعتبار سے پاکستانی قوم کی مثال بنی اسرائیل کی قوم سے بہت زیادہ ملتی ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ظلم و ستم سے آزاد کر کے ایک خاص علاقے میں لا کر بسایا تھا اور ساتھ کی بستی والوں سے ضروری وجوہات کی بنیاد پر جہاد و قتال کا حکم دیا تھا لیکن انھوں نے مختلف انداز کی تاویلیں پیش کر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم جہاد فی سبیل اللہ کا انکار کر دیا تھا۔قرآن مجید کی سورہ مائدہ آیت نمبر21 تا 26 تک ان کے متعلقہ احوال بیان کئے گئے ہیں۔ وہ حضرت موسیٰu سے کہنے لگے: (فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ) ”کہ اے موسی(u) آپ اور آپ کا رب دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔” چنانچہ جب حضرت موسیٰu کی نافرمان قوم نے اس بستی والوں سے جہاد کرنے سے انکار کر دیا تو پھر سورہ بقرہ اور قرآن مجید کی دیگر سورتوں کے مطابق حضرت موسیu کی قوم پر اللہ تعالی کی طرف سے مختلف انواع و اقسام کے عذابات سزا کے طور پر مسلط ہوئے۔ ان پر طوفان بھی آئے، زلزلے بھی آئے، آپس میں باہمی لڑائیوں، فسادات اور قتل و قتال میں ہزاروں کی تعداد میں انسان قتل ہوئے۔ یہ سب کچھ ان پر اس وجہ سے ہوا کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم جہاد فی سبیل اللہ سے اعراض کیا تھا۔

بعینہ اہل پاکستان پر اللہ تعالی کی طرف سے عائد کردہ جہاد کشمیر سے پاکستانی موقف کے یو ٹرن کے بعد بطور نتیجہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان پر طوفان ،سیلاب، زلزلے، لڑائیاں،جھگڑے،فسادات اور باہمی قتل و قتال کا سلسلہ اللہ تعالی کی طرف سے شروع ہوا اور پاکستان سیاسی و معاشی اور نظریاتی و جغرافیائی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ مسائل کا شکار ہوا۔ اگرچہ مختلف تاویلیں و فلسفے پیش کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی قوم کی طرح پاکستان کے پالیسی ساز وں نے کشمیر پر یوٹرن لینے کا مقصد یہی بتایا تھا کہ وہ پاکستان کی بقاء، دفاع اور خوشحالی چاہتے ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پہلے سے بھی کہیں زیادہ عدم استحکام اور خوفناک معاشی بدحالی کا شکار ہوا۔

Holy Quran

Holy Quran

افسوس کا مقام ہے کہ بنی اسرائیل کی قوم سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے پاکستان کے پالیسی ساز نہ صرف ابھی تک اسی پالیسی کو بدستور اپنائے ہوئے ہیں بلکہ کشمیر میں جاری جہاد کو نقصان پہنچانے والے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ مندرجہ بالا قرآن پاک کے حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ دشمنان اسلام و پاکستان کی پیروی میں اللہ تعالی کے نازل کردہ آئین کی کی مخالفت کرنے اور اللہ تعالی سے دشمنی مول لے کر اللہ کے عذاب کو مزید دعوت دینے کی بجائے اللہ کا خوف کیا جائے اور کشمیر میں جاری تحریک سے وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے تاکہ وطن عزیز پاکستان پر اللہ رب ذوالجلال و الاکرام کی رحمتیں نازل ہوں۔

تحریر: حافظ طلحہ سعید
4۔ لیک روڈ چوبرجی، لاہور
برائے رابطہ: 0321-4289005