چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بلوچستان امن و امان کیس کی 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے پولیس حکام سے کہا کہ آپ کو قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہے۔ سپریم کورٹ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہا کیا۔
سی سی پی او کوئٹہ نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں اس سال اغوا برائے تاوان کے 19 کیسز ہوئے، 90 فیصد گروہوں کا خاتمہ کر دیا صرف ایک گینگ رہ گیا ہے۔ سینئر وکیل ایاز ظہور نے عدالت کو بتایا کہ پشین اسٹاپ سے ڈاکٹر کو اغوا کیا گیا اور سارے دیکھتے رہ گئے۔ چیف جسٹس نے سی سی پی او سے استفسار کیا کہ ڈاکٹر مناف کو اغوا کیا گیا، کیا پیش رفت ہوئی ان کے اغوا میں کون سے عناصر ملوث ہیں۔ سی سی پی او کوئٹہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم عوام کی حفاظت کیلئے کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر مناف ترین کی بازیابی کیلئے شہر کی ناکا بندی کر دی ہے۔ واقعے کے بعد ایس پی بشیر بروہی ناکا لگا رہے تھے ملزمان نے فائرنگ کر دی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ اگر آپ کو کام کرنا ہے تو آپ کو مکمل طریقے سے کرنا ہو گا۔ رات کو ڈاکٹر اغوا ہوا تھا تو آپ نہ سوتے اور اسے لے کر آتے۔ جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ سابق چیف سیکریٹری کے دور میں چینی اغوا ہوئے، چیف سیکریٹری 3 دن بعد چینی شہریوں کو خود لے کر آئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے چلائی جاتی ہیں لوگ اسلحہ بارڈر سے لیکر آتے ہیں اور پھر دوبارہ وہیں چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کتنا اسلحہ آتا ہے کہاں اسمگلنگ ہوتی ہے اس کی فہرست بنائیں، ہمارے لیے ہر شہری کی اہمیت ہے۔ سیکریٹری داخلہ بلوچستان نے کہا کہ ہم نے خصوصی ناکہ جات اور چیکنگ سسٹم تیار کیا ہے جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سیکریٹری داخلہ سے کہا کہ آپ کو پالیسی دینی ہے۔ لیاقت بازار اور سیٹلائٹ ٹاون جائیں، دیکھیں کیا حال ہو گیا ہے۔ چمن کے باب دوستی سرحد پر بیٹھ کر دیکھیں، کیسے کام ہو رہا ہے۔
پولیس، ایف سی اور کسٹم سب جگہ پر پیسا چل رہا ہے، سب نے آنکھیں بند کی ہوئی ہی، ماضی میں ایک پولیس افسر سارے علاقے کو کنٹرول کرتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جرائم کے خاتمے کیلئے قبائلی عمائدین سے تعاون لیں تاہم قبائلی عمائدین کی شناخت ظاہر نہ ہو، عام آدمی کی طرح پشتون آباد، سریاب، قمبرانی اور سمنگلی جائیں۔ بے ایمانی کی حد ہے یہاں کام کرنے کو کوئی تیار نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کراچی میں مصروف ہے ہماری کوشش ہے یہاں حالات مقامی سطح پر حل ہو جائیں یہاں کسی چیز کا ریکارڈ نہیں حکومت کی رٹ کہاں ہے۔