آزادی کی خاطر آپکی جدوجہد اگر کامیاب ہو جائے تو انقلاب ورنہ بغاوت آپ کے ایسے جرم میں شمار ہوتی ہے جو آپ کو سامراج کے کسی پٹھو یا کٹھ پتلی حکمران کے ہاتھوں تختہ دار تک لے جاتاہے تھامس سنکارا کو بر کینا فاسو میں وہی مقام حاصل ہے جو کیوبا میں چی گویرا کو ،وہ بائیں بازو کا ایک محب وطن انقلابی تھا فرانسیسی غلامی سے نجات دلانے کیلئے اُس نے اپنی قوم میں انقلاب کی نئی روح پھونک دی برکینا فاسو مغربی افریقہ کا ملک ہے
فرانسیسی سامراج کے تسلط کے زیر اثر اس ریاست کی آزادی کیلئے تھامس سنکارا کی روح بے چین رہی وہ چاہتا تھا کہ اُس کے ملک کے باسی آزادی کی فضا میں سانسیں لے سکیں ایک آزاد ریاست میں اُن کو بھی جینے کا حق ہو فرانسیسی سامراج کے خلاف تھامس سنکارا نے ایک منظم جدوجہد کی بنیاد رکھی آزادی کے متوالے اُس کے ساتھیوں نے قربانیوں کی ایک طویل تاریخ اپنے لہو سے لکھی پھر 1983 میں ایک روز فرانسیسی سامراج کے تسلط کو اس جدوجہد کے تسلسل نے پارہ پارہ کر دیا سنکارا آزاد قوم کا نجات دہندہ بنا سو اقتدار کا تاج اُس کے سر پر سج گیا
جس دھرتی کی آزادی کی خاطر سنکارا اپنے لوگوں ،اپنی قوم کا ہراول بنا اُسی دھرتی کو سنکار ا نے ”برکینا فاسو (دیانت دار انسان کی سر زمین )کا نام دیا ”سنکارا محب وطن تھا ،دھرتی کا بیٹا تھا وہ دھرتی کو اپنی ”ماں ”کہتا تھا سو اُس نے اپنی مٹی کے ساتھ یہ عہد کیا ،یہ قسم اٹھائی کہ وہ ہر اُس لعنت سے اُسے نجات دلائے گا جو غلامی کی کسی بھی شکل میں دھرتی ماں کے ساتھ جڑی ہوئی ہوگی اُس نے پہلا کام یہ کیا کہ برکینا فاسو کے تمام زمینی اور معدنی وسائل کو نیشنلائز کیا
سامراج کے ساہو کار اداروں آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک جن کے چنگل میں ملک کی معیشت سسک رہی تھی سے تمام تعلقات توڑ ڈالے، اُس نے بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجے میں اناج کی ریل پیل ہو گئی اور بر کینا فاسو خوراک میں خود کفیل ہو گیا سنکارا نے اقتدار میں آتے ہی صحت ،تعلیم کے مسائل کو ہنگامی حالت حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اپنی نو آزاد ریاست کے 25لاکھ بچوں کی ویکسی نیشن کر ڈالی تعلیم پر توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے دو سالوں میں برکینا فاسو کے تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد دوگنا ہو چکی تھی سنکارا کا نظریہ تھا کہ کسی بھی دھر تی پر انقلاب اور آزادی شانہ بشانہ چلتے ہیں
آزادی کوئی خیرات نہیں بلکہ انقلاب کی فتح کی بنیادی شرط ہوتی ہے سنکارا کے وزراء کی تنخواہیں انتہائی قلیل اور مراعات محدود تھیں سنکارا کو جہاں اپنے عوام کے حقوق کی جانگسل جدو جہدکا سامنا تھا وہاں دو بڑے دشمن اُس کی تاک میں تھے ایک وہ طبقہ جو فرانسیسی سامراج کا لے پالک اُس کی ریاست کے اندر تھا
ایک فرانسیسی سامراج جو ریاست کی سر حدوں سے باہر سنکارا کے عوام دوست عوامل سے خائف سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف تھا سازشیں عروج پکڑتی چلی گئیںاور ایک انقلابی حکومت سامراج اور اُس کے پالتو غنڈوں کیلئے ناقابل برداشت ہوتی چلی گئی ایک غدار وطن اور سامراج کے دست راست کمپیئورے کی مدد سے بالآخرریاستی سازش اپنے انجام کویوں پہنچیکہ سامراجی قوت نے اقتدار پر شب خون مار کر سنکارا کو قتل کر کے جسمانی طور پر مٹا دیا
Parliament
عوامی خواہش پر پائوں رکھ کر ایک غدار وطن کا اقتدار 1991سے شروع ہوا سامراج کے کارندے کو چار مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن پر عوامی خواہش کے برعکس مسلط کیا گیا مگر جب اُس نے پانچویں مرتبہ ایک خود ساختہ آئینی ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کیلئے خود ساختہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا توایک آمر کے مظالم سے ستائے لاکھوں افراد نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا سخت سکیورٹی کے باوجود باغی عوام نے پارلیمنٹ کو آگ لگا دی عوامی یلغار نے صدارتی محل کا رخ کیا تو اُس کو آنسو گیس کی شیلنگ اور گولیوں کی بوچھاڑ سے روکنے کی ناکام کوشش کی گئی
بپھرے ہوئے لوگوں نے حکمران جماعت کے دفاتر جلاڈالے صدر کے رشتہ داروں کے گھر نذر آتش کر دئیے آرمی چیف کی وارننگ اور کرفیو کا اعلان بے سود ثابت ہوا اور عوام نے دارالحکومت کے مرکزی چوک پر قبضہ کر کے اُس کا نام قومی چوک سے تبدیل کر کے ”انقلابی چوک ” رکھ دیا یہ عوامی تحریک عوام کی جیت پر متنج ہوئی اور بالآخر 30اکتوبر2014کو امریکہ کا اہم اتحادی اور عوام پر ناجائز طور پر قابض ، دارالحکومت میں 2007سے امریکی اڈہ قائم کرکے امریکہ کیلئے جاسوسی کرنے والا دھرتی کا غدار کمپیئورے داستان عبرت بن گیا
عوام کے اندر کئی برسوں سے پکنے والا لاوہ غم و غصے اور تحریک میں بدلاتو 27 برسوں سے اقتدار پر قابض امریکہ کا ایک ایجنٹ اُس کے سامنے نہ ٹھہر سکا 2011 میں بھی اس آمر نے عوام کے غصے ،نفرت ،احتجاج کو طاقت کے ذریعے ،جبر اور ریاستی تشدد سے روکا ، سراپا احتجاج لوگوں کو پابند سلاسل کیا ، مگر عوامی غصے کو ،تحریک کو احتجاج کو وقت کے آمر کچھ وقت کیلئے ۔کچھ عرصہ کیلئے شاید روکنے میں کامیابی کے دعویدار ٹھہریں اقتدار کی اندھی طاقت کے زعم میں عقل کل کہلائیں مگر اُن کی یہی منطق ،اقتدار کی اندھی طاقت کازعم نوشتہ دیوار بن کر تاریخ کا حصہ بن جایا کرتا ہے
کئی روز سے میں حکومتی اکابرین ،حواریوں کو اس منطق میں مبتلا دیکھتا ہوںجو طاقت کے اس خمار میں گھرے ہوئے ہیں کہ ہم نے ماڈل ٹائون میں 14لاشیں گرا کر ،شہر اقتدار میں سراپا احتجاج افراد پر اپنے گلو بٹوں سے گولیاں برساکر اور فیصل آباد میں حق نواز جیسے ورکر کو شہید کر کے عوامی تحریک کے سیلاب کے آگے بند باندھ دیا مگر وہ شاید بھول رہے ہیں کہ اب کی بار جب عوام باہر نکلے تو اُنہیں نہ تو کوئی اقتدار کی اندھی طاقت روک پائے گی اور نہ ہی ریاستی جبر اور تشدد عوامی جذبات پر ضرب لگا پائے گا