سلامتی کونسل بھارتی جارحیت کی گونج

Security Council

Security Council

تحریر : قادر خان یوسف زئی

16جنوری کو سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ ترین صورتحال پر 16 اگست 2019 کے بعد بند کمرے میں دوبارہ اجلاس ہوا۔ یہ 1965 کے بعد تیسرا جبکہ چھ ماہ کے دوران دوسرا موقع تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے ایسے اقدامات کو نافذ کیا گیا جس کے بعد پاکستان و بھارت کشیدگی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ چین بھی بھارتی غیر قانونی اقدامات کی زد میں آیا اور پاکستان نے چین کی مدد سے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست دی۔ بھارت نے سلامتی کونسل کا اجلاس روکنے کی سرتوڑ کوشش کی، لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ چین اور پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت و غیر قانونی اقدامات اور مسلم نسل کش سازشی منصوبوں پر توجہ عالمی برداری کی جانب مبذول کرائی۔ تاہم عالمی طاقتوں کے فروعی مفادات کی وجہ سے گمان کیا گیا کہ بھارت کو امریکا، فرانس کی حمایت حاصل ہے، اس لئے سلامتی کونسل بھارت کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق سست روئی سے کام لے رہا ہے۔

پانچ مہینے بعد ایک بار سلامتی کونسل کا اجلاس چین کی درخواست پر طلب ہوا۔ بند کمرے میں منعقد ہونے والا اجلاس اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ چھ مہینے کے دوران ایک بار اقوام متحدہ کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت و نہتے کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے اذیت ناک سلوک روا رکھنے اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر دوبارہ جائزہ لیا گیا۔ یہ بھارت کے خلاف پاکستان کی اہم ترین کامیابی ہے کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے دیرینہ مسئلے کو حل کرانے کے لئے ایک با ر پھر اقوام عالم کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی کہ بھارتی بربریت کو لگام دینے کے لئے مودی سرکار کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ واضح رہے کہ بھا رتی حکومت نے 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے سے قبل اگست میں ہزاروں نیم فوجی دستوں کو جموں وکشمیر پہنچایا تھا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے مسلط کر دہ فوجی محاصر ہ جاری رہنے کی وجہ سے وادی کشمیر،جموں اور لداخ خطوں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں نظام زندگی بدستور مفلوج رہا اور لوگ شدید مشکلات سے دوچارہیں۔ وادی کشمیر میں دفعہ 144کے تحت عائدسخت پابندیوں، بڑی تعداد میں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی، پری پیڈ موبائل فون، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ سروسز بدستور معطل ہونے کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ایک دوسرے سے رابطہ بھی نہیں کرسکتے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سلامتی کونسل میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔بریفنگ کے بعد کونسل کے ممبران کے درمیان صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا جس میں کونسل کے تمام 15 ممبران نے اس مباحثے میں حصہ لیا۔سلامتی کونسل کے کشمیر سے متعلق اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب زینگ جن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیرکی صورتحال پر سلامتی کونسل کی میٹنگ ہوئی جس میں مقبوضہ کشمیر کی زمینی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔چینی مندوب کا کہنا تھا کہ کشمیر ہمیشہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے،چین کا کشمیر کے معاملے پر موقف بالکل واضح ہے۔اقوام متحدہ میں روس کے مستقبل مندوب دمتری پولیانسکی نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان کہا کہ سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں کشمیر کا معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ روسی مندوب کا کہنا تھا کہ روس پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیہ کی بنیاد پر دو طرفہ کوششوں کے ذریعے دونوں ملکوں کیاختلافات دور ہوجائیں گے۔یہ اجلاس پاکستان کی درخواست پربلایا گیا تھا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو خط لکھ کرکشمیر کی صورتحال پر توجہ دلائی تھی۔اقوام متحدہ مداخلت کرے، تقریر سے کچھ نہ ہوا تو دنیا کو پتہ چل جائے گا کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، بھامقبوضہ کشمیر میں دکانیں، کاروبار، تعلیمی مراکز بند ہیں اور لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں نام نہاد سرچ آپریشن کی آڑ میں مظلوم اور نہتے کشمیریوں کے قتل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وادی میں خوف کے سائے برقرار ہیں جبکہ سری نگر کی جامع مسجد سمیت دیگر مساجد میں نماز جمعہ ادا نہیں کرنے دی جاگتی۔ قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور وادی میں حالات تاحال کشیدہ ہیں اور وادی کا دنیا سے تعلق تاحال منقطع ہے۔کشمیریوں کونماز جمعہ کی ادائیگی سے روکنے کے لیے، سری نگرمیں جامع مسجد کے اطراف کی سڑکیں سیل ہیں۔ کشمیری مذہبی شعائر سمیت انسانی حقوق سے محروم ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ بیشتر لیڈران جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں، پانچ اگست سے مسلسل نظر بند ہیں۔حریت رہنما سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک، شبیر شاہ،سیدہ آسیہ اندرابی و دیگر بھی نظر بند ہیں یا جیلوں میں ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال پر کئی ممالک نے رسمی طور پر بھارت کے غیر انسانی اقدامات پر اپنی تشویش کا اظہار ضرور کیا، خاص طور پر امریکی سینیٹ اور بیشتر سینیٹرز نے خطے میں مقبوضہ کشمیر کے حل میں رکاؤٹ کا ذمے دار مودی سرکار کو قرار دیا ہے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے گزشتہ برس اکتوبر میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے مسلم اکثریت کے علاقے جموں و کشمیر پر حملہ کر دیا ہے۔انہوں نے گزشتہ ماہ بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت کے شہریت سے متعلق نئے قانون سے ملک میں بدامنی کی فضا پیدا ہوئی ہے اور یہ اقدام بھارت کے سیکولر تشخص کی نفی کرتا ہے۔ وزیر اعظم مہاتیر محمد نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر بھارت کی جانب سے پام آئل کا بائیکاٹ کرنے کے باوجود موقف پر قائم رہنے کی بہترین اور قابل تقلید مثال پیش کی۔ بھارت، ملائیشیا سے پام آئل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بھارت پام آئل درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور وہ ملائیشیا اور انڈونیشیا سے سالانہ 90 لاکھ ٹن پام آئل درآمد کرتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق بھارت نے 2019 کے دوران ملائیشیا سے 44 لاکھ ٹن پام آئل درآمد کیا تھا۔ لیکن مودی سرکار کے دباؤ کے سبب بھارتی درآمدکنندگان مہنگے داموں انڈونیشیا سے دس ڈالر فی ٹن مہنگے داموں پام آئل خریدنے پر مجبور ہیں۔

مودی سرکار نے ملائیشیا پر دباؤ ڈالا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت پر اپنا اصولی موقف واپس لے تو پام آئل کی خریداری شروع کردی جائے گی، لیکن مقبوضہ کشمیر پر ملائیشیا نے موقف پر پُر عزم رہ کرثابت کیا ہے کہ تمام مسلم اکثریتی ممالک کے لئے ایک نمایاں مثال ہے کہ مسلم امہ کو پہنچنے والی تکلیف پر اگر کسی بھی مفادات کے تحت زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، تو ایسا ضرور کیا جاسکتا ہے کہ تھوڑا مالی نقصان برداشت کرکے کشمیریوں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بھارت کو راہ راست پرلایا جاسکتا ہے۔ کشمیر ی عوام مغربی ممالک اور امریکی ریاستوں میں مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال پر احتجاجی مظاہروں سے توجہ مبذول کراچکے ہیں۔ پاکستان نے بھی تمام تر صورتحال میں انتہائی تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام عالم کو واضح پیغام دیا کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر جس قسم کے اقدامات کررہا ہے اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے، ا س سے خطے میں جنگ کے ہیبت ناک خطرات منڈلاتے رہیں گے۔

کشمیری عوام کو حکمت عملی سے لائن آف کنٹرول کراس کرنے سے روکنے کی کوشش جا رہی ہے تاکہ مودی سرکار کو ایسا کوئی موقع نہ مل سکے جس میں وہ پاکستان پر جھوٹے الزامات لگا کر مقبوضہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹاسکے۔اس سے قبل چند یورپی انتہا پسندجماعتوں کے نمائندوں کو مودی سرکار نے چند گھنٹوں کے لئے قابض فوجی مراکز کا دورہ کرواکر دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کی تھی جو بُری طرح ناکام ہوئی۔ تمام حریت پسند رہنماؤں، تنظیموں اور بھارت اپوزیشن جماعتوں نے بھی بھونڈی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیم کے نمائندوں کو جانے کا مطالبہ کیا، جس پر بھارت نے عالمی غیر جانب دار اداروں کی کسی بھی مطالبے و تجویز کو ماننے سے انکار کردیا۔ سلامتی کونسل کے اجلاس اہمیت کا حامل رہا اور بھارت کے اس موقف کو دوبارہ رد کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔تاہم سلامتی کونسل کے اراکین ممالک کی جانب سے انسانی المیے پر عملی اقدامات نہ کئے جانا،مسلم امہ اور مسلم اکثریتی ممالک میں تشویش کا سبب بن رہا ہے کہ اگر یہ سب کسی مسلم ملک میں غیر مسلموں کے ساتھ ہوتا تو اب تک اُس ملک پر چڑھائی کرکے پابندیاں بھی عائد کردی جاتی اور راست اقدام اٹھایا جاتا۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی