ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے چوٹی کے جوہری سائنس دان کے قتل کی مذمت اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم سفارت کارو ں کا خیال ہے کہ اس اپیل پر شاید توجہ نہ دی جائے۔
اگر پندرہ رکنی سلامتی کونسل کا کوئی رکن ایرانی جوہری سائنس داں محسن فخری زادہ کے قتل کے معاملے پر غور و خوض کے لیے درخواست دیتا ہے تو سلامتی کونسل بند دورازے میں اس پر اجلاس بلا کر اور اراکین کے درمیان اتفاق رائے ہونے پر کوئی بیان جاری کر سکتی ہے۔
سلامتی کونسل میں جنوبی افریقہ کے سفیرجیری ماٹجیلا نے منگل کے روز بتایا کہ ایرانی سائنس دان کے قتل یا ایران پر تبادلہ خیال کے لیے اب تک کسی رکن ملک نے کوئی درخواست نہیں دی ہے۔ سفارت کاروں کے مطابق کوئی بیان جاری کرنے کے حوالے سے بھی کسی طرح کی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ہے اور اسے کسی کے خلاف فوجی کارروائی یا پابندیاں عائد کرنے کا حکم دینے کا بھی اختیار ہے لیکن اس طرح کے اقدامات کے لیے کم از کم نو اراکین کی حمایت اور پانچ مستقل اراکین امریکا، فرانس، برطانیہ، روس اور چین کی جانب سے مخالفت میں ویٹو کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
گوکہ ایرانی جوہری پروگرام کے ‘فادر‘ سمجھے جانے والے فخری زادہ کے قتل کی ذمہ داری ابھی تک کسی نہیں قبول کی ہے تاہم ایران نے اس کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
امریکا روایتی طور پر سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ واشنگٹن نے بھی ایرانی سائنس داں کے قتل پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
اقوام متحدہ میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات کے تفتیش کار ایجینس کالامارڈ نے کہا کہ فخری زادہ کے قتل کے حوالے سے بہت سارے سوالات ہیں تاہم یہ ایک مسلح تصادم کے باہر ماورائے عدالت نشانہ بنا کر قتل کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
کالامارڈ نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ اس طرح کا قتل بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
ایران نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کو بھی اس سلسلے میں ایک خط ارسال کیا ہے۔ گوٹیرش نے اس کے جواب میں ‘کسی بھی ماورائے عدالت قتل‘ کی مذمت کرتے ہوئے ایران سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
سلامتی کونسل کی ہر چھ ماہ پر ہونے والی معمول کی میٹنگ 22 دسمبر کو طے ہے، جس میں عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان 2015ء میں ہونے والے معاہدے پر غور کیا جائے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ 2018 ء میں اس سے یکطرفہ طورپر الگ ہوگئی تھی۔
22دسمبر کو سلامتی کونسل کی مجوزہ میٹنگ میں کونسل کا کوئی رکن یا ایران اگر چاہے تو فخری زادہ کی ہلاکت کا معاملہ اٹھاسکتا ہے۔
دریں اثنا ایران کی پارلیمنٹ نے ایک بل کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو تہران کی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
خبر رساں ادارے ‘اے پی‘ کے مطابق مذکورہ بل کے تحت اگر جوہری معاہدے 2015 ء کے دستخط کنندہ ممالک تیل اور بینکنگ پر عائد پابندیوں میں نرمی نہیں کرتے توایرانی حکومت یورینیم کی افزودگی کو بڑھانے پر ساری توانائی خرچ کرے گی۔
بل کی منظوری کے دوران پارلیمان کے اجلاس کو ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا گیا، جس میں اراکین ‘امریکا مردہ باد، اسرائیل مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے نظر آئے۔