تحریر : قادر خان افغان سب کے لئے حفاظت اور وقار کا منشور اقوام متحدہ کے آئین کا حصہ ہے ۔ اس وقت دنیا میں امن کی جس قدر ضرورت ہے ، اس قبل کبھی نہیں تھی ۔ دنیا اس وقت جہاں ایٹمی و تیسری عالمی جنگ عظیم کے دہانے پر کھڑی ہے تو دوسری طرف متعدد ممالک میں خانہ جنگیوں کے سبب لاکھوں افراد اپنے گھروں سے نقل مکانی کرچکے ہیں ۔ لاکھوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں ۔ اربوں کھربوں ڈالرز کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ امن کے لئے جنگ کا فلسفہ طاقت روبہ زوال ہے ۔ جنگ عظیم اول ، دوئم کے بعد عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ نے خطرات کے مہیب بادلوں نے اقوام عالم کو تشویش میں مبتلا کئے رکھا ۔ طاقت کی حکمرانی کیلئے استعماری قوتوں نے ترقی پذیر ممالک کو جنگی تجربہ گاہ بنا دیا۔اقوام متحدہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے وہ موثر کردار ادا نہیں کرسکا جن مقاصد کیلئے عالمی فورم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔25اپریل1945ء سے26جون1945ء تک سان فرانسسکو امریکا میں 50ممالک نے ایک کانفرنس منعقد کرکے یونائیٹڈ نیشن کا منشورمرتب کیا گیا اور پھر 24اکتوبر1945ء کو اقوام متحدہ معرض وجود میں آئی۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی تمہید میں آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانے کا مصمم ارادہ ظاہر کیا گیا۔روادری ، ہمسایوں سے پُرامن زندگی ، بین الاقوامی امن اور تحفظ کے خاطر طاقت کے استعمال میں فروعی کے بجائے مشترکہ مفادات کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ۔اقوا م متحدہ کے مقاصد میں سب سے پہلی شق ہی میں کہا گیا کہ “مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ کو قائم کیا جائے گا”۔اقوام متحدہ کی رکنیت کے لئے مملکت کا” امن پسند” ہونا لازمی قرار دیا گیا ۔اقوام متحدہ کے بنیادی اعضا ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ایجنڈا ہی امن و امان کے خاطر بین الاقوامی اصولوں پر غور کرکے اس کے لئے سفارشات پیش کرنا ہے۔اسی طرح سلامتی کونسل کا مقصد اولیّن بھی بین الاقوامی حفاظت معاملات ہیں۔سیکورٹی کونسل کی سب سے اہم ذمے داری قوانین کے مطابق دنیا بھر میں امن اور سلامتی کو قائم رکھنا ہے، اس کے کُل 15اراکین ہیں جن میں سے 5مستقل اراکین) فرانس ، روس ، برطانیہ ، چین اور امریکا ( کے پاس ویٹو کا اختیار ہے اور دس منتخب شدہ اراکین جنھیں جنرل اسمبلی دو سال کیلئے منتخب کرتی ہے ۔
دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے اور امن کے لئے اس عالمی فورم کے تمام اعضا ء کا کردار واجبی وغیر فعال ہے ۔ دنیا میں امن کے قیام کے لئے اقوام متحدہ ایک غیر فعال تنظیم درجہ اختیار کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ کی پالیسیوں پر سلامتی کونسل کے پانچ اراکین کا غلبہ ہے اور جمہوری رویوں و اقدار کو نصب العین سمجھنی والی یہ عالمی فورم خود غیر جمہوری رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام رکنممالک کی قراردادوں کی حیثیت سلامتی کونسل کے نزدیک کچھ نہیں ہے ۔ ایک مستقل رکن عالمی دنیا کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو(رد) کرسکتا ہے۔ اقوام متحدہ سے قبل اقوام عالم کے نام پر بننے والی لیگ آف نیشن اسی لئے ناکام ہوئی کیونکہ وہ بھی اپنے اغراض و مقاصد اور دنیا میں امن کے قیام کو یقینی نہیں بنا سکی تھی۔ اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ہمیشہ عالمی طاقتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے تحت استعمال کیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دراصل غیر مسلم استعماری طاقت کا استعارہ ہے ، جس میں ایک بھی اسلامی ملک شامل نہیں ہے۔حالانکہ سلامتی کونسل کے ممالک کی معاشی ضروریات و دیگر وسائل کو اسلامی ممالک ہی پورا کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سلامتی کونسل کی پانچ سپر طاقتوں میں ایک بھی اسلامی ملک کا نہ ہونا خود اقوام متحدہ کے منشور پر سوالیہ نشان اٹھاتا رہا ہے کہ جس میں تمام ممالک و بنی نوع انسان میں برابری کی سطح پر حقوق دینے کی بات کی گئی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا استعمال ہمیشہ مسلم ممالک کے خلاف ہوا ہے ۔ خاص طور پر امریکہ نے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے لئے جس طرح استعمال کیا ہے، اس سے پوری دنیا میں جنگ کے سائے محیط رہتے ہیں اور جہاں امن نہیں ہے وہاںبے امنی بنیادی وجہ امریکی جارحانہ خارجہ و مالیاتی پالیساں ہیں۔ امریکی جارحیت کا تحفظ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کرتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ تھا ۔جو برطانیہ ، فرانس ، روس ، امریکہ ، اٹلی ، یونان، پرتگال ، رومانیہ ، جرمنی ،اٹلی ، آسٹریہ اور ہنگری کے درمیا ن لڑی گئی۔بعد ازاںترکی کی سلطنت عثمانیہ بھی اس میں جرمنی اتحاد کا حصہ بنی۔اس جنگ عظیم اوّل میں ایک کروڑ فوجی ہلاک ہوئے۔جو ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ تھی۔اس جنگ میں دوکروڑ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔جبکہ غیر فوجی ہلاکتوں کی تعدادایک کروڑ30لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور بیدخل کئے گئے۔اہم بات یہ ہے کہ اس عظیم جنگ میں مسلمانوں کو کافی نقصان ہوا اور ترکی کوجرمنی کے اتحادی ہونے کی وجہ سے جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔مسلمانوں کی عظیم خلافت کا خاتمہ ہوگیا اور ترکی کے ہاتھ سے عرب مقبوضات ہاتھ سے نکل گئی۔دوسری جنگ عظیم بھی مغربی استعمار نے شروع کی 3ستمبر1939کو جب پولینڈ پر جرمنی حملہ آور ہوا تو برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا ۔اس جنگ میں61 ملکوں نے حصہ لیا ، ایک ارب سے زائد فوجیوں کے درمیان دوسری جنگ عظیم ہوئی ، 40ممالک کے سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی،5کروڑ کے قریب افراد ہلاک ہوئے ، صرف 2کروڑ روسی مارے گئے۔اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کرکے جاپان کی جنگ میں ہارنے کے باوجودلاکھوں افراد کو ہلاک کردیا ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دو بڑی طاقتیں ابُھر کر سامنے آئیں ۔ اور اس کے بعد ان دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ اس وقت تک رہی جب افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یونین کا سقوط ہوا۔ یہاں یہ امر قابل حیران ہے کہ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل میں ان ممالک کو طاقت کا محور بنا یا گیا ہے جن کی وجہ سے کروڑوں انسان ہلاک و زخمی ہوئے۔ مغرب میں فلسفہ طاقت کے تحت کمزور ممالک کے خلاف جارحیت میں بھی ان ہی قوتوں کا نمایاں ہاتھ ہے۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں شہریوں کو بے گناہ ہلاک کیا ۔دنیا کی واحد طاقت بننے کیلئے اس نے کروڑوں انسانوں کے سروں کے مینار بنا رکھے ہیں اور اب بھی خود کو امن کا چیمپئن قرار دیتا ہے۔ عراق میں دس لاکھ انسانوں کی نسل کشی امریکا کی خون آشام فطرت کا بھیانک باب ہے۔ سوویت یونین ۔افغان جنگ میں تیس لاکھ افغان عوام کی ہلاکتیں روس کے ماتھے کا کلنک ہیں۔شام ، یمن ، الجزائر، عراق ، افغانستان میں جنگ مسلط کرنے والے سلامتی کونسل کے ممالک کا قیام امن کیلئے کردار حوصلہ افزا نہیں ہے ۔ ان کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ عراق میں جھوٹی رپورٹوں کی بنیاد پر لاکھوں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں نے آج تک عراق کے داخلی معاملات میں مداخلت کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ خانہ جنگیوں نے عراق کو تقسیم کی راہ پر لگا دیا ہے ، کُرد اپنی ریاست کو عراق سے الگ کرنے میں جُتے ہوئے ہیں اور عراقی علاقے مسلسل دہشت گردکاروائیوں کے سبب امن کی تلاش میں راندہ درگاہ ہیں۔ داعش کی پرورش کے بعد عراق اور شام کے خطے کو فرقہ وارنہ جنگوں کی آجامگاہ بنادیا گیا ہے ۔ ایک جانب روس ہے تو دوسری جانب امریکا ، اور دونوں طاقتوں کا نشانہ مسلم آبادیاں اور علاقے ہی بن رہے ہیں۔ جنگوں اور عالمی سازشوں کی ملکہ برطانیہ کا آشیر باد مسلمانوں کی تباہی کیلئے اسرائیلی ریاست کے قیام سے لیکر افغانستان میں شہزادہ ہیری کو بھیجنے تک شرمناک رہا ہے۔
عراق میں امریکا کے ساتھ ملکر مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے بعد “اوہ بھول ہوگئی ، غلطی ہوگئی ، معافی چاہتے ہیں”کے بعد کیا وہاں لاکھوں انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔اہم اسلامی طاقت کو دیوار سے لگا کر تباہ و برباد کرنے کے بعد بھی ان کے منہ پر لگے خون سے درندوں کی پیاس ختم نہیں ہو رہی ۔افغانستان میں جارحیت کے جارحیت کے سولہ برسوں میں لاکھوں انسانوں کو گھروں سے بے گھر کردیا اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اقوام متحدہ امریکا ، برطانیہ ، روس ، فرانس کو بے گناہوں کے قتل عام سے روکنے میں ناکام رہی بلکہ انھیں قتل انسانی کا اجازت نامہ دیکر عظیم جرم کا ارتکاب کیا ۔امریکہ جنگ ویتنام میں ناکامی کے باوجود امن کے نظام کو درہم برہم کرنے سے باز نہیں آیا۔جنگ ویتنام میں ویت نامی اشتراکیوں کے اتحادی سوویت اتحاد اور عوامی جمہوریہ چین تھے، جبکہ مخالفت میں امریکہ ، جنوبی کوریا ، آسٹریلیا۔تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ تھے۔1959سے30اپریل 1975تک جاری اس عسکری تنازع میں شمالی ویت نام اور اس کے اتحادیوں کے 11لاکھ77ہزار سے زائد انسان ہلاک اور 6لاکھ سے زائد زخمی ہوئے۔ جبکہ جنوبی ویتنام اور امریکی اتحادیوں کے3لاکھ سے زائد فوجی ہلاک اور 15لاکھ کے قریب زخمی ہوئے۔جبکہ شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی، جس میں جنوبی ویتنام کے 15لاکھ سے زائد ، کمبوڈیا کے 7لاکھ سے زائد ، شمالی ویتنام کے20لاکھ، لائوس کے تقریباََ50ہزار سے زائدشہری ہلاک ہوئے۔
اس وقت امریکا ، شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی جنگ کے دروازے پر کھڑا ہے ۔ شمالی کوریا کیساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی امن کے لئے کوئی راستہ نکالنے کے بجائے ، امریکی خواہشات پر مسلسل پابندیاں عائد کررہی ہے ۔ اقوام متحدہ ، امریکی احکامات کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ 70برسوں سے ایشیا کا سب سے اہم مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں مکمل ناکام ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتہا پسند 7لاکھ فوجیوں نے ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھا ہے ۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کا معاملہ خود اقوام متحدہ میں لے جایا گیا تھا ،کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کے بجائے بھارت نے ریاستی دہشت گردی کرکے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اسرائیلی طرز پرہندو انتہا پسند پنڈتوں کو مقبوضہ کشمیر میں لاکر آباد کیا جارہا ہے ۔خطے کے اس اہم سنگین مسئلے کی وجہ سے پاک۔بھارت کے درمیان چار جنگیں بھی ہوچکی ہیں اور اب مسلسل بھارتی اشتعال انگیزیوں اور امریکی اتحادی بننے کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان پر ایٹمی حملے کرنے میں پہل کی دہمکیوں پر اقوام متحدہ کا کردار سوالیہ نشان ہے کہ آخر بھارت کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ کشمیر کی عوام کی امنگوں اور مطالبات کے برعکس کشمیریوں کی نسل کشی کئے جائے۔لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیاں فوجی مشقوں کا حصہ بن گئی ہیں۔ خطے میں امن کے قیام کے لئے اقوام متحدہ کا مثبت کردار نظر نہیں آتا ، لیکن امریکا کی جانب سے بھارت کو خوش کرنے کیلئے اور خطے میں طاقت کو غیر متوازن بنانے کے لئے کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیئے جانے اور بھارت ، جوکہ پہلے ہی اسلحہ خریدداری میں جنون کی حد تک پہلے نمبر پر ہے ، مزید اسلحہ فروخت کرنے کے علاوہ، اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی بھارت میں بنانے کے امریکی معاہدے خطے کے امن کو خراب کررہے ہیں۔
میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں پر ریاست کی جانب سے قتل عام پر سلامتی کونسل کی جانب سے تادم تحریر کوئی عملی اقدام نہ کئے جانا بھی ثابت کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کا عالمی فورم ، سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے ذہنی غلام بنے ہوئے ہیں اور دنیا میں امن کے قیام میں سب سے بڑی رکائوٹ خود سلامتی کونسل کے مستقل ویٹو پاور رکھنے والے ممالک ہیں۔امریکا کا دنیا بھر بد امنی کے حوالے سے کردار منافقت کی انتہائی سرحدوں کو چھو رہا ہے۔ اسرائیل کا گاڈ فادر بن کر فلسطینی مسلمانوں پر صہونیت کے پیروکاروں کے ظلم و جبر کو نظر انداز کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا سب سے بڑا اخلاقی و جنگی جرم ہے ، غیر قانونی یہودی بستیوں کی مسلسل تعمیرو آباد کاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں پر ہمیشہ امریکا نے اسرائیل کے خلاف آنے والی قراردادوں کو ویٹو کرکے ثابت کیا کہ دنیا میں امن کا سب سے بڑا خطرہ خود امریکا ہی ہے۔سعودی عرب۔یمن اور پھر قطر تنازعے میں بھی امریکا کا کردار خود امریکا کے اعتراف سے سامنے آیا ہے کہ اُس نے سعودی عرب کو قطر کے خلاف پابندیوں کے لئے قائل کیا۔امریکا یہ کھیل پہلے بھی عراق کے ساتھ ایران۔عراق جنگ اور پھر کویت پر عراق کی جانب سے قبضے کی صورت میں پس پردہ سازشیں کرکے کھیل چکا ہے۔ایران کی جانب سے شام ، عراق اور یمن میں براہ راست فریق بننے سے بھی فرقہ وارنہ جنگوں کو ہوا ملی اور قدرتی وسائل سے مالا مال سر زمین میں مسلسل بے امنی کا راج قائم ہوا ہے۔ سعودی عرب۔ایران تنازعے نے امریکا اور مغربی استعمار کو مسلمانوں کے خلاف کھل کر خون کی ہولی کھیلنے کا موقع فراہم کیا ۔ لاکھوں شامی ،لبنان، یمنی مسلمان خانہ جنگیوں کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ انسان موت کا مقدر بن گئے ہیں۔
لیبیا ، مصر اور ترکی امریکی سازشوں کا مسکن بن چکے ہیں۔ مصر میں عوامی حکومت کے خاتمے اور ترکی میں فوجی بغاوت میں امریکا کا ملوث ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر امن و سلامتی کے نام پر حاصل کیا گیا ملک تھا ، اسے بے امنی کا گہوارہ بنا دیا گیا ۔پاکستانی ریاست کی غلط خارجہ پالیسیوں اور امریکی اتحادی بننے کی وجہ سے سوویت یونین۔ افغانستان کی جنگ میں پاکستان براہ راست ملوث ہوگیا ۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی بغیر اندارج اور مقررہ مقام پر قیام نہ کرنے کے سبب ، پاکستان کے معاشی و علاقائی جغرافیائی حالات پر بُرے اثرات نمودار ہوئے اور پاکستان پرائی جنگ کے پراکسی وار کے اس جال میں اس طرح جکڑا کہ ابھی تک خود کو آزاد نہیں کراپارہا۔ امریکی حلیف بننے کے” جرم” میں ہزاروں پاکستانیوں کی ہلاکتیں اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردکاروائیوں سے متاثر ہونے والی مملکت کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے امریکا نے گرگٹ کے طرح رنگ بدلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور خطے میں امن کے بجائے جنگ کو فروغ دینے کے لئے بھارت کو خطے کا پولیس مین بنانے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے۔بھارت جس کی مسلم و دلّت اقلیتیں انتہا پسند ہندوئوں کی شدت پسندی سے شدید متاثر ہیں ۔ بھارت جو لاکھوں کشمیریوں پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ، ایسے امن کا چیمپئن بنانے کیلئے افغانستان میں اہم کردار دیکر سی پیک منصوبے کی وجہ سے پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں مکمل امن کے قیام کے لئے عوام کو رد الفساد کا سپاہی بننا ہوگا ۔ اندرونی و بیرونی سازشوں سے پاکستان کی سا لمیت اور استحکام کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کبھی فرقہ واریت ، لسانیت ، صوبائیت کا فسوں پھونکا جاتا ہے تو کبھی استعماری قوتیں پاکستانی عوام کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ، مملکت پر بیرونی طاقتوں کے آشیر باد سے جنگ مسلط کرنے کی سازشیں رچائی جاتی ہیں، مملکت کو امن کا گہوارہ بنانے سے روکنے کیلئے قیام پاکستان سے لیکر سقوط ڈھاکہ اور آج تک بیرونی طاقتوں کی سازشیں بام عروج پر پہنچ چکی ہیں ، مملکت کا سیاسی ڈھانچہ آج تک اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا نہیں ہوسکا ۔ امن کی ضرورت جس طرح پاکستان کو ہے اسی طرح دنیا بھر میں ہر انسان کو ہے۔ دنیا کو امن سے روشناس کرانے کیلئے اقوام متحدہ نے جو ادارے بنائے ہیں وہ مکمل غیر فعال اور جانبدارانہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے فورم کو اپنے کردار اور فعالیت کے لئے مربوط پالیسی مرتب کرنا ہوگی ۔سلامتی کونسل کے نام پر پانچ اراکین کی اجارہ داری کا خاتمہ کرکے جمہوریت کے نام لیوائوں کا پہلے اس پر خود عمل کرنا ہوگا ۔ دنیا بھر میں مسلمان ، عیسائیت کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں ، لیکن ان کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کے بجائے ان کی اجتماعی نسل کشی کی منصوبہ بندیوںکیں جا رہی ہیں ۔ کیمیائی ہتھیاروں ، نائن الیون ، 7/7کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف متشدد کاروائیوں سے مغرب میں بھی امن نہیں لایا جاسکتا ۔ کروڑوں انسانوں کے قاتل آج امن کے ٹھیکدار بنے بیٹھے ہیں۔ جنگ عظیم اول ، دوئم ، ویتنام ، عراق، لبیاافغانستان و دیگر ممالک میں کروڑوں انسانوں کے قاتل امن کے ٹھیکدار کس طرح بن سکتے ہیں۔تخفیف اسلحہ کیلئے اُن ممالک کو مجبور کیا جاتا ہے جو اپنی عوام کی حفاظت چاہتے ہیں،۔ لیکن خود یہ استعماری عالمی قوتیں ایٹمی ،اور جراثیمی ہتھیاروں کے نت نئے تجربات اور میزائل ٹیکنالوجی سے دنیا کے امن کو خطرات سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔ افغانستان پر دنیا کا سب سے وزنی بم گرا کر امریکا نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کیلئے ہیروشیما و ناگاساکی کی تاریخ کو دوبارہ دوہرا سکتا ہے۔ شمالی کوریا کو دی جانے والی ایٹمی حملوں کی دہمکیاں محض بیانات نہیں بلکہ ایک امریکی صدر کی جنونیت اور دنیا میں واحد طاقت ہونے کے زعم میں فرعونیت کی نشانی ہے۔
امن کے قیام کیلئے عالمی طاقتیں اگر ترقی پزیر ممالک میں معاشی جنگیں مسلط نہ کریں تو ان کی شیطانی روح مطمئن نہیں ہوتی۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کو جنگ خطرات میں الجھا کر اپنی تجوریاں بھرنے والی یہ عالمی قوتیں دنیا میں پائیدار امن کے لئے حائل ہیں۔ ترقی پزیر ممالک ، مسلم ممالک کو اپنے خطے میں امن کے قیام کو یقینی بنانا ہے تو اپنے اختلافات کو اپنی علاقائی و عالمی فورم کی توسط سے عمل میں لانا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی یوم امن منانا کی اس روایت میں ہمیں اقوام متحدہ کے کردار کوموضوع بحث بنانا ہوگا کہ کیا اقوام متحدہ ،سلامتی کونسل نے اپنے مقاصد اور ترجیحات کے مطابق عمل کیا ہے کہ نہیں ۔ہم جب تک استعماری طاقتوں کی غلامی سے نہیں نکل سکتے جب تک اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے عالمی طاقتوں کے غلام نہ بنیں ۔ استعماری قوتوں کے غلام حکمرانوں کو منتخب کرنے سے قبل یہ عوام کی ذمے داری بنتی ہے کہ جن کیلئے وہ ووٹ کی صورت میں گواہی دے رہے ہیں کیا واقعی یہ لیڈرز اس کے اہل ہیں، یاد رکھیں ۔اللہ تعالی ہر ایک سے اس کے اعمال کا حساب لے گا ۔ ہمیں اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے فکری جمود کو کیوں نہیں توڑ رہے۔ حالاں کہ ہمارے سامنے دنیا کا سب سے پُر امن دین اسلام اور فرق و تفرقے کو دور کرنے والی تا قیامت محفوظ رہنے والا ضابطہ حیات و نظام موجود ہے۔ جب تک امت مسلمہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھامیں گے ، اس وقت تک اختلافات و فروعی مسائل کا شکار ہوکر دنیا بھر میں راندہ درگاہ رہیں گے اور اللہ تعالی کا عذاب بے امنی کی صورت میں ہم پر مسلط رہے گا۔