تحریر : حنا یاسمین سارا کو یونیورسٹی سے پک کرنا ہے، مجھے کریم بلاک چھوڑ کر پھراسے جوہر ٹائون چھوڑ کر آئیے گا،علی نے کوئی تیسری دفعہ اپنی مما مسز فرقان سے یہ بات کی،بیٹا اطمینان رکھو مجھے نہیں بھولے گا،میں اپنے بیٹے کی عادت جانتی تھی،وہ اپنے یقین کے لئے ایک بات بار بار دہراتا ،ابھی پچھلے دنوں باچا خان یونیورسٹی میں حملہ ہوا تھا،توہم لوگ بچوں کے حوالے سے بہت خوفزدہ تھے،ہمارا ارادہ تویہ تھا کہ ہم بھی کنیڈا ضیاء بھائی لوگوں کے ہمراہ شفٹ ہوجائیں،یونیورسٹی میں گاڑی بلا روک ٹوک بڑے سکون سے داخل ہوئی،نہ کسی نے چیک کیا نہ کسی کو اندازہ کہ گاڑی میں بیٹھے افراد ملک دشمن عناصر سے تعلق تونہیں رکھتے ،مما ! زرا سکیورٹی دیکھیں علی کا منہ بن گیا اس کے دوست کا بھائی بھی دہشت گردی کی نظرہوگیاتھا،اسی لئے اسے اب ہروہ جگہ بری لگتی جہاں سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہو،مما برے حکمران ۔۔۔۔نااہل ۔۔۔۔وہ بولا بیٹا ! حکمران کیا کریں آجکل اتنی دھمکیاں مل رہی ہیں وہ نفری رینجرز اور آرمی کہاں سے منگوائیں ہم ویسے بھی ترقی پذیر ملک کے باسی ہیں توکہاں سے اتنے وسائل اکٹھے کریں۔
مما! سب کچھ ہوسکتا ہے ۔۔۔ ہم کرنا نہیں چاہتے ۔۔۔چھوڑ دیں بچوں کومرنے کے لئے ۔۔۔۔وہ میری تقریر پرہی موڈآف کرکے بیٹھ گیا میں اسکی جذباتیت پر صرف مسکرا کرہی رہ گئی،سارا کو لے کر ہم اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ سے کچھ آگے دورخی سڑک پر آگئے اشارے پر گاڑیاں رکیں،ہم لوگ دائیں جانب تھے،اورپھربڑا ہی شاہانہ منظردیکھنے کوملا ٹریفک پولیس ہمارے کاغذات چیک کررہی تھی،اورمیں کاغذات نکال کر ابھی ان کوپکڑاہی رہی تھی،کہ علی نے مجھے کہا ادھر دیکھیں ۔۔۔۔۔بائیں جانب والی سڑک پر رکی ہوئی کرولا ایکس ایل آئی کے نزدیک ایک ون ٹوفائیو بڑی شاہی سواری کی مانندآئی تھی،انکے پاس موزرتھی،تینوں افرادبائیک سے اترے انتہائی دھڑلے سے گاڑی کے شیشے موزرکی بیک سائیڈ سے کھٹکھٹانے لگ پڑے کرولامیں بیٹھے افرادنے شیشے کھولے انکے پاس شائد کوئی بڑی رقم تھی۔
انہوں نے شاپر کی طرف اشارہ کیا اور ان سے وہ شاپر لے کر ویسے ہی بائیک پر بیٹھے اور کک لگا کر یہ جا وہ جا ۔۔۔۔واہ کیا اسٹائل ہے ۔۔۔۔سارا کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی تووہ مسکرا کر بولی جبکہ علی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا دیکھیں مما! ہماری ”سکیورٹی ” ۔۔۔۔ ٹریفک پولیس ویسے ہی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی،جان کس کو نہیں پیاری ہوتی ؟ یہ حالات ہیں اس ملک کے ۔۔ آپ کو کوئی بھی آرام سے مارسکتا ہے،لوٹ سکتا ہے آپ کے ہاسٹل میں ۔۔سکول میں ۔۔کالج میں۔۔ گھرمیں کوئی بھی آرام سے گھس سکتا ہے،اب ہم سب کو ذہنی طورپر اگلی دنیا کے سفر کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔
Inflation
اگراتنی مہنگائی میں اس ملک میں کوئی چیزسستی ہے تووہ ہے صرف ”موت” سمجھ نہیں آتی کہ بے شک سکیورٹی کے لئے وسائل کم ہیں پر مما! جب تک دروازے گھر کے بند نہیں ہونگے گھروں میں صحیح سکیورٹی الارم نہیں لگے ہونگے،کوئی کیسے دیواریں ،دروازے توڑ کرآسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟علی کی بات نے دوبارہ میرے دماغ کو جھنجھنایا تھا،اگرسرحدوں پر سکیورٹی سخت ہوجائے تو مما کوئی دہشت گرد داخل ہی کیوں ہوں؟ اگراداروں میں کام کرنے والے افرادمخلص ہوجائیں چندرپوں کے عوض نہ بکیں تو کوئی کیسے گھس سکتا ہے،مما! یہاں روحیں بکی ہوئی ہیں،جسموں کی کون حفاظت کریگا،علی کی کسی بھی بات کا میرے پاس جواب نہ تھا میرے لفظ گنگ اور زبان ساکن تھی،ہم لوگ ہر روز بغیر کسی حادثاتی۔
طبعی موت کے مررہے ہیں،مما! وسائل نہیں ہیں نا ؟ علی کی آنکھوں میں تضحیک تھی یا چبھن ۔۔میں سمجھ نہ سکی۔۔دیکھیں ہمارے سائن بورڈز ۔۔۔یہ فلاں مووی کا ہے یہاں اتنی لاگت لگی ۔ اس کو بنانے میں یہ فلاں زنیندار کی پراپرٹی ہے جوکتنے ہی کروڑوں میں بکنے کے لئے تیاربیٹھی ہے،مما! یہاں وسائل بھی ہیں پیسہ بھی ۔۔ کوئی صلاح الدین ایوبی۔۔۔کوئی ٹیپوسلطان کوئی طارق بن زیاد نہیں ہے،بس ۔۔۔ اور میرے موبائل پر بل ہونا شروع ہوگئی۔
Pakistani Politicians
میں نے کسی بڑے سیاستدان کی طرح علی کی ساری باتوں سے نظریں چرانے کے لئے فون کا سہارا لیا،جہاں مسزحیات مجھ سے وردہ کولیکشن کے بارے میں استفسار کرنے لگی،اب اگلے کتنے ہی منٹس ہم نے مختلف برانڈزپر بات کرنے تھی،میرے بیٹے کی آنکھوں میں مایوسی تھی یا درد ۔۔۔۔میں نے دیکھنا گوارا نہ کیا ۔۔بعض معاملات میں ہماری حکومت کونظریں چرانا ہی بہتر لگتا ہے۔