ڈنمارک (اصل میڈیا ڈیسک) زیرو ازائلم سیکرز‘: ڈنمارک حکومت کا اصل ہدف ہے۔ اب ڈینش حکومت نے تمام شامی مہاجرین کو واپس شام بھیجنے کا حکم دے دیا ہے۔
آیا ابو داہر نے ڈنمارک کے شہر نیبُرگ سے ابھی حال ہی میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور وہ جون میں اپنے دوستوں کے ساتھ اس کی خوشی منانے کی تیاریاں کر رہا تھا کہ اُسے حکام کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی، جس سے اُس کے سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے۔ ای میل اس شامی طالبعلم اور اُس کے والدین کو لکھی گئی، جس میں یہ درج تھا کہ ان سب کا رہائشی اجازت نامے کی مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔ بیس سالہ آیا ابو داہر کہتا ہے،” میں بہت افسردہ تھا، میں خود کو غیر ملکی محسوس کرنے لگا۔ مجھے ایسا لگا کہ ڈنمارک میں مجھ سے ہر چیز چھین لی گئی۔ میں بس بیٹھ کر روتا رہا۔ میں سو بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے ایک دوست نے اپنی گاڑی سے مجھے میری فیملی کے پاس پہنچایا۔‘‘
جب ڈنمارک حکام نے گزشتہ موسم گرما میں شامی دارالحکومت کو محفوظ شہروں کی فہرست شامل کیا تھا، تب سے ڈنمارک میں سینکڑوں شامی باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور یا ان کی توسیع نہیں کی گئی۔ ڈینش مہاجرین کونسل ‘ ڈی آر سی‘ کی سکریٹری جنرل شارلوٹے سلینٹے کہتی ہیں،” گرچہ شام میں نہ تو جنگ ختم ہوئی ہے نہ ہی اسے فراموش کیا گیا ہے، لیکن ڈنمارک کے حکام کا خیال ہے کہ دمشق میں حالات اتنے اچھے ہیں کہ شامی مہاجرین کو اب واپس بھیجا جا سکتا ہے۔‘‘ ڈنمارک یورپ کا واحد ملک ہے جس نے شامی باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کیے ہیں۔
سلینٹے کے بقول،” یہ فیصلہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ شامی باشندوں کو وطن واپسی پر سنگین حملوں اور ظلم و ستم کے خطرات لاحق ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا،” محض اس وجہ سے کہ دمشق میں جنگ نہیں ہو رہی ہے، اس شہر کو محفوظ سمجھنا غلط خیال ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسے کہ ڈی آر سی اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ساتھ ساتھ ڈنمارک کی بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے بھی ڈینش حکام کے اس رویے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ سوشل لبرل پارٹی کے انضمام کی پالیسی کے ایک ترجمان ‘ کرسٹیان ہیگارڈ نے اپنے فیس بُک پر تحریر کیا،” ڈنمارک نے شام میں عدم استحکام اور سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر اپنا سفارتخانہ وہاں بند کر دیا، اب وہ شام کو محفوظ ملک کیسے قرار دے سکتا ہے۔‘‘ کرسٹیان کے بقول آیا ابو داہر جیسے طالبعلموں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ سنگدلی اور غیر معقول بات ہے۔
چونکہ ڈنمارک شامی صدر بشار الاسد حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کرتا لہذا اس وقت شامی باشندوں کی ملک بدری زبردستی نہیں کی جا سکتی۔ یہ موقف ہے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا۔ جو شامی باشندے رضا کارانہ طور پر ملک بدر ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے انہیں’ ڈپورٹیشین کیمپوں‘ یا ملک بدری مراکز میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ ڈینش مہاجرین کونسل ‘ ڈی آر سی‘ کی سکریٹری جنرل شارلوٹے سلینٹے نے شامی مہاجرین کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا،” انہیں تعلیم حاصل کرنے اور معاشرے میں کام کرنے اور تعاون کرنے دیا جائے۔‘‘