تحریر: سید انور محمود اپریل 2016 میں پاناما پیپرز کا معاملہ سامنے آیا جس میں سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے بچوں حسین نواز، حسن نواز اورمریم نوازکے کے نام بھی شامل تھے، اس بنیاد پرنواز شریف سے وزارت عظمی سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، نواز شریف نے یہ کہہ کر استعفی دینے سے انکار کردیا کہ ان کا نام پاناما پیپر زکی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ یکم نومبر 2016 سے یہ کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا، 20 اپریل 2017کو اس کیس کے پہلے فیصلے میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کے پانچوں جج صاحبان متفق تھے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنی بےگناہی ثابت نہیں کرسکے، اور نہ ہی ان کے بچوں کے دلائل ان کو بے گناہ ثابت کرتے ہیں۔ دو ججوں جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزارنے اپنے اپنے فیصلوں میں بغیر کسی اگر مگر کےلکھا تھا کہ’’وزیراعظم نا اہل ہیں، صادق اور امین نہیں رہے، آئین کی رو سے وہ اب قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے لہذاانھیں وزیراعظم کے عہدئے سے ہٹاکر نااہل قرار دے دیا جائے‘‘، لیکن باقی تین ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ابھی ہم نے نااہلی کا فیصلہ نہیں کیا ہے، ایک کمیشن بنایا جائے، اور 60 دنوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔
وزیراعظم اور انکے بچوں سے مزید معلومات حاصل کرنے کےلیے ایک جے آئی ٹی ترتیب دی گئی جس نے 60 دن میں نواز شریف اور انکے بچوں کی وہ وہ بدعنوانیاں ڈھونڈ نکالیں جو شاید عام لوگوں کی سوچ سے باہر تھیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی دس والیم کی رپورٹ میں دبئی اور جدہ کی اسٹیل ملوں ، لندن کے فلیٹوں اور منی لانڈرنگ کی قلعی کھول کر رکھ دی ، لیکن 28 جولائی 2017کے فیصلے میں نواز شریف کے تعلق سے ان تمام بدعنوانیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ نواز شریف کرپشن یا پانامہ لیکس میں نا اہل نہیں ہوئے بلکہ ان کی نا اہلی کیپٹیل ایف زیڈ ای نامی کمپنی کے چئیرمین کی حیثیت سے دس ہزار درہم تنخواہ وصول کرنے کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔ کمپنی نواز شریف کے بیٹے کی تھی ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ نواز شریف نے اس کمپنی سے کبھی کوئی پیسہ وصول نہیں کیا، لیکن سپریم کورٹ کے نزدیک یہ ایک اثاثہ ہے جو نواز شریف نے 2013 کے انتخابات میں اپنی نامزدگی کے وقت چھپایا تھا لہذا وہ صادق اور امین نہیں رہے، عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ نواز شریف اور ان کے بچوں خلاف ریفرنس دائر کیے جائیں اور ان مقدمات کا فیصلہ چھ مہینوں میں کیا جائے۔گویا نوازشریف اور تمام بدعنوانیوں میں صادق بھی تھے اور امین بھی لیکن دبئی کے اقامہ رکھنے اور اپنے بیٹے کی کمپنی سے پیسے نہ لیکر وہ نہ صادق رہے اور نہ ہی امین۔ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کےلیے جے آئی ٹی کی رپورٹ ہی کافی تھی لیکن شاید تین رکنی بینچ تمام تر جے آئی ٹی کاروائی کے باوجود وہ ٹھوس ثبوت نہ تلاش کرسکی جس کو بنیاد بناکروہ نواز شریف کے خلاف کوئی فیصلہ کرتی۔ کیا اس فیصلے پر حیران نہ ہوا جائے کہ نواز شریف جواربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں ان کو محض دس ہزار درہم یعنی تین لاکھ روپے ماہانہ یا 36 لاکھ روپےسالانہ چھپانے کی بنیاد پر نااہل قرار دئے دیا جائے۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ اقامے اور درہم کا معاملہ تو صرف تین ججوں کے سامنے آیا تھا لیکن کہا گیا ہےکہ یہ پانچ ججز کا متفقہ فیصلہ ہے۔
پاکستان کی عدلیہ کے بارئے میں عام طور پر کہا جاتاہے کہ یہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہی، سب سے پہلےجسٹس منیر کا وہ بدنام زمانہ فیصلہ آیا جس میں گورنر جنرل غلام محمدکےغیر جمہوری فیصلےکو نظریہ ضرورت کی چھتری تلےجائز قرار دیا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی آجتک عدالتی قتل کہلاتی ہے، ، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قلابازیاں اور اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش، معروف وکیل عاصمہ جہانگیر کے مطابق پاناما کیس کا فیصلہ کرنے والے پانچ ججوں میں سے چار ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا، تو کیا ان تمام ججز کو صادق اور امین کہا جاسکتا ہے؟ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پاکستان میں ایک طرح سے سیاسی عدم استحکام کی فضاء پیدا کردی ہے۔بقول محترمہ عاصمہ جہانگیر کہ ’اس فیصلے نے جنرل ضیاء کی یاد تازہ کردی ہے۔ یہ فیصلہ عدالتوں کو مستقبل میں پریشان کرے گا۔ فیصلے کا زبردستی احترام نہیں کرایا جا سکتا ہے‘۔ مسلم لیگ (ن) کے سعد رفیق کا کہنا ہے کہ فیصلہ قبول نہیں لیکن عمل درآمد کریں گے۔سعد رفیق نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا، عدالت کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں گے، ہم فیصلے پر عمل کریں گے لیکن اسے قبول نہیں کررہے۔
پاکستان کی ستر سال کی تاریخ میں کسی ایک بھی منتخب وزیراعظم کا نام موجود نہیں ہے جس نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری کی ہو۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے لیکن ایک مرتبہ بھی وہ اپنی مدت پوری نہ کرسکے، بقول تجزیا نگاروں کے پہلے انہیں ایک سابق بیوروکریٹ صدر نے، دوسری مرتبہ ایک جنرل نے اور تیسری مرتبہ اعلیٰ عدلیہ نے ان کو اپنی مدت پوری نہ کرنے دی، گویا ان کے بارئے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ تین مرتبہ کے منتخب ’ادھورئے وزیراعظم‘ ہیں۔ نواز شریف 1990 میں پہلی مرتبہ اور 2013 میں تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ شريف خاندان کے بيرون ملک اثاثوں کے بارے ميں انکشافات گزشتہ برس منظر عام پر آنے والے پاناما پيپرز ميں سامنے آئے تھے۔ اپوزيشن لیڈراور خاصکرعمران خان نواز شريف پر الزام عائد کرتے رہے کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے بيرونی ممالک ميں دولت اکھٹی کی جس کی مدد سے بعد ازاں برطانوی دارالحکومت لندن ميں جائیدادیں خريدی گئيں۔ نواز شريف کے خلاف پيٹيشن دائر کرانے والوں ميں پاکستان تحريک انصاف کے رہنما عمران خان، عوامی مسلم ليگ کے سربراہ شيخ رشيد اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق شامل تھے۔
بیس اپریل کو مٹھائی بانٹنے والی مسلم لیگ (ن) اب اپنے اقتدار کے چنے بانٹ رہی ہے، عمران خان جنہوں نے نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر نماز شکرانہ ادا کی ہے ڈر ہے کل کوئی اور ان کی نااہلی پر نماز شکرانہ ادا کر رہا ہوگا، اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں کیونکہ پہلے فوج کے جوتوں کی دھمک سنتے تھے اب ہتوڑئے کی دھمک سنیں گے۔ پاکستان میں اس وقت ایک طبقہ سُپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کو ملک میں جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی قرار دے رہا ہے اور چند تجزیہ کاروں کے خیال میں اس سے ملکی سیاسی استحکام کو بھی دھچکا لگے گا۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا خاتمہ پاکستان کی فوج کے ہاتھوں ہوا ہے لیکن اس مرتبہ ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھوں ہوا ہے یعنی عدالتی مارشل لاء۔ پاکستان کی سُپریم کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا منفرد اور انتہائی ناقص فیصلہ ہے جس کے زریعے ایک کرپٹ شخص جس کی تین نسلیں اس ملک کو لوٹتی رہی ہیں اس کو سیاسی شہید کا درجہ دیا گیاہے۔ دوستوں تھوڑا سا انتظار کریں سب معلوم ہوجائے گا، عدلیہ کا یہ فیصلہ شاید آگے چل کر عدلیہ کی بدنامی کا سبب بنے گا۔