سلیکٹڈ نہیں الیکٹڈ

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : روہیل اکبر

پنجاب حکومت نے وزیر اعظم کے واضح اعلان کے باوجود سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے جیل میں دی گئی کوئی سہولت واپس نہیں لی کیونکہ بزدار سرکار قانون اور آئین سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہتی یہی وجہ ہے کہ ایک قومی مجرم اتنی زیادہ لوٹ مار کے ماوجود جیل میں بھی گھر والی سہولتوں سے مستفید ہورہا ہے بلکہ جیل کے اندر سے بھر پور سیاست بھی جاری ہے سینٹ چیئرمین کا نام میاں نواز شریف نے ہی تجویز کیا تھا جسے منتخب کروانے کے لیے پوری اپوزیشن اکٹھی ہو چکی ہے جی ہاں یہ وہی اپوزیشن والے ہیں جو کبھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اورابھی پچھلے سال کی تو بات ہے جب یہی لوگ اپنے جلسے،جلوسوں اور احتجاجوںمیں ایک دوسرے کو سڑکوں پر کھسیٹنے کی باتیں کیا کرتے تھے اور تو اور چوک میں الٹا لٹکا کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے جیسے بیانات بھی داغے جارہے تھے مگر آج اقتدار سے باہر ہوئے ہیں تو آمریت کی نرسری میں پروان چڑھنے والوں کو جمہوریت خطرے میں نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔

عمران خان نے امریکہ میں قومی مجرموں سے اے سی اور ٹیلی وژن کی سہولت واپس لینے کی ہی تو بات کی تھی جس پر سابق نام نہاد خادم اعلی نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ تین بار کے وزیراعظم سے اگر اے سی واپس لیا تو اس کے گردے فیل ہوجائیںگے گردوں کا اے سی سے کیا تعلق یہ جیل ہے میری سرکار کوئی رائے ونڈیا سرے محل نہیں جہاں نوکروں کی فوج کے ساتھ آپ غریب عوام کے پیسے پر عیاشیاں کرتے تھے آپ کے اوپر بننے والے تمام مقدمات آپ کے دور اقتدار میں ہی بنے اور یہ وہ دور تھا جب ملک میں آپکا سکہ چلتا تھااور چڑیا آپکے حکم کے بغیر پر بھی نہیں مار سکتی تھی جس نے آپکے حکم سے انکار کیا توپھر اسے کبھی جعلی پولیس مقابلوں میں پار کروادیاجاتا تھا تو کبھی کسی ایماندار آفیسر کو انگلی کے اشارے سے کھڈے لائن لگا دیااور پھر اسکی جگہ اپنے کسی خاص کو اس اہم سیٹ پر بٹھا دیا گیا۔

یہی وجہ تھی کہ ہر ادارے میں آپ کے نمک خوار بیٹھے ہوئے تھے جبکہ گذرے ہوئے 72سالوں میں تقریبا آدھا عرصہ آپ ہی حکمران رہے ہیں آپکے ہاتھوں بھرتی ہونے والے معمولی ملازم آج اعلی عہدوں پر براجمان ہیں کرپشن ،دھونس ،دھاندلی اور سفارش پر بھرتی ہونے والوں سے انصاف کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے کسی حق دار کی جگہ اپنے ووٹر کو بھرتی کرلیا جائے تو وہ کیسے عمر بھر کسی کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے پنجاب کے ہر محکمہ میں تقریبا ہر عہدے پر انہی کے لگائے ہوئے بندے تعینات ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بطور ملزم اور مجرم ہوتے ہوئے بھی وہ زندگی کے پورے مزے لوٹ رہے ہیں رہی بات ہمارے شیر جوانوں کی جن کا مزاج آج تک نہیں بدلا عمران خان اور بزدار جتنی مرضی کوشش کرلیں ہمارا تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہوسکتا کیونکہ میرٹ سے ہٹ کر بھرتی ہونے والے کبھی بھی میرٹ پر فیصلے نہیں کرسکیں گے اگر کسی کو کوئی شک ہے تو حمزہ شہباز کی گرفتاری کا واقعہ دیکھ لیں کہ کس طرح اس وقت کے آئی جی سے لیکر نیچے کانسٹیبل تک ہر ملازم نے اسکی مدد کی اور نیب کو ناکام واپس لوٹنا پڑا خیر یہ پرانی بات ہے اور ہم ایک دو دن سے زیادہ اپنی یاداشت کو تکلیف نہیں دیتے۔

ہم پرانی باتیں بہت جلد بھول جاتے ہیں چلو کوئی بات نہیں میں آپکو ابھی کی تازہ صورتحال بھی بتائے دیتا ہوں کہ پنجاب میں اب پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر ابھی بھی سکہ ن لیگیوں کا ہی چل رہا ہے اگر کسی کو نہیں یقین تو فیروز پور روڈ ایل او ایس کے قریب ڈسٹرکٹ جیل موجود ہے جہاں ن لیگ کے اہم کردار بند ہیں اور جیل سپرنٹنڈنٹ انہیں اب بھی پورا پروٹوکول دے رہا ہے رہی بات بڑے میاں صاحب کی تو انہیں سنٹرل جیل میں کون پوچھ سکتا ہے وہاں کی جیل کا ایک ایک ملازم چھوٹے میاں صاحب اور بڑے میاں صاحب کا بھرتی کیا ہوا ہے جو نہ صرف انکی نوکری کرتا ہے بلکہ افسران بھی انہی کے تابع ہیں میں بات کررہا تھا کیمپ جیل کی جہاں نیب نے کرپشن کے الزام میں میاں خادم اعلی صاحب کے دست راست افراد کو بند کیا ہوا ہے جو پوری جیل میں آزادنہ گھومتے ہیں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے کو اپنا ڈرائنگ روم اور اسکے ساتھ ملحقہ کمرے کو بیڈ روم سمجھتے ہیں جیل سے جب بھی اپنے ڈرائنگ روم آتے ہیں تو بڑا گیٹ کھول دیا جاتا ہے جب چاہیں اور جتنی دیر قیلولہ فرمانا چاہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔

جبکہ انہی کے ساتھ ہی نیب کا ملزم آصف ہاشمی بھی بند ہے جسکے ساتھ ایسے سلوک کیا جاتا ہے جیسے ان سب ن لیگیوں کو جیل پہنچانے والا یہی فرد ہے پانچ مرتبہ وزیر کے برابر رتبہ رکھنے والے آصف ہاشمی کو جب دل کی تکلیف حد سے بڑھ گئی تو پھر بحالت مجبوری میں جیل حکام نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچایا ابھی آرام بھی نہیں آیا کہ جیل حکام واپس لے آئے اسکے گھر سے آنے والے کپڑوں سے لیکر کھانے تک کو ایسے چیک کیا جاتا ہے جیسے پوری جیل میں بند قیدیوں کا استاد ہو جبکہ اصل میںجو استاد لوگ ہیں انکے سامان کو ہاتھ لگانے کی بھی کسی کوجرات نہیں انہیں جیل میں بھی گھر جیسا ماحول فراہم کیا جارہا ہے جب چاہتے ہیں ہسپتال داخل ہوجاتے ہیں اور جس چیز کو دل چاہے وہ فورا حاضر کردی جاتی ہے کہنے کو تو پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر آج بھی ہر ادارے میں شریف خاندان کے ملازم ہی بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں اب اپنے اپنے احسان اتارنے کا موقعہ مل رہا ہے اور اگر بزدار حکومت نے اس پر کوئی خاص ایکشن نہ لیا تو جیل کے اندر سے جو خطرناک سیاست کھیلی جارہی ہے وہ آنے والے دنوں میں عمران خان کے لیے بہت سے مسائل کو جنم دے سکتی ہے جس سے نبرد آزما ہونا شائد پی ٹی آئی کے بس میں نہ ہو اسلیے آپس کے اختلافات بھلا کر اور عہدوں سے بے پروا ہوکر ملک اور قوم کے لیے کچھ کرجائیں کیونکہ آپکو اقتدار عوام نے دیا آپ سلیکٹڈ نہیں الیکٹڈ وزیراعظم اور وزیراعلی ہو۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200