نرم نوری کری چاپڑی سلیکشن والوں کے لال پر مصیبت کہاں سے آ پڑی؟ نااہلی کے جمعہ بازر میں یہ کیسی بے حسی ہے، حکمرانوں کا سلیکٹیڈ طبقہ عوامی مسائل پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔جب بھی کوئی عوامی مسائل کی بات کرتا ہے تو یہ لوگ چور چور ڈاکو ڈاکو کا ایک ہی لے میں عسکری ترانہ پڑھنے لگ جاتے ہیں۔یہ اپنےآپ کو منتخب کہتے ہیں مگر یہ بتانے کو تیار نہیں ہیں کہ انہون نے ووٹ دینے والے عوم کو کتنا رلیف اپنے گذشتہ دس ماہ میں دیا ہےاور ان کی بہتری کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ نااہلیت کی یہ انتہا نہیں تواور کیا ہے کہ مہنگائی کا عفریت سرچڑھ کے بول رہا ہے ملک کی معیشت کھڈے لائن لگا دی گئی ہے۔ ناکامی میں بے حسی کو شامل کر کے یہ اپنا منہ حقائق سے مسلسل چھپا رہے ہیں۔نا اہلوں کا بجٹ بھی ان کی نااہلیت کا کھلا اورمنہ بولتا ثبوت ہے۔جس نے عوم کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا ہے۔
عمران نیازی حکومت کی ناکامی کے دس ماہ میں، ملک کی معیشت کا جو کباڑا کیا جا چکا یےاس کی ماضی کے پاکستان کی تاریخ میں، نا اہلیت کی مثال پیش کرنا نہایت مشکل امرہے۔اس حکومت کا سربراہ اپنی ماضی کی تاریخ میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کا شدید مخالف رہا ہے۔مگر اب اسی کےاشاروں پرجوبجٹ پیش کیاہےاس سے حکمران طبقے کی نا اہلیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔موجودہ حکومت نےبجٹ سے پہلے ہی مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا تھا، گیس بجلی پیٹرول سونے پہ سہاگہ ڈالر کو بھی پر لگا کر 158روپے پر پہنچا کرعوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس ناکام بجٹ کو پاس کرانے کے لئے نیب اور اسٹا بلشمنٹ کے ساتھ ملکر بھر پور کوششیں جاری ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے واضح الفاط میں یہ عندیا دیدیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اس نااہلیت کے نمونہ بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گے دوسری جانب نااہلیت کی انتہا کو دیکھئےوزیرِ اعظم جو اپنے آپ کو منتخب کہتا ہے وہ عوام سے اور پارلیمنٹ سے منہ چھپا کربجٹ پاس کرانے کے لیئےاوچھےاورغیرپارلیمانی طریقہ کاراپنانے کی اپنےحواریوں کو تلقین کر رہا ہے۔۔
سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کی صاحب زادی مریم نوازجو مسلم لیگ ن کی نایب صدر بھی ہیں، نے پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئر مین مسٹر بلاول زر داری کو مذاکاراتی دعوت پر بلا کر آنے والے سیاسی دورانیئے کا لائحہ عمل طے کیا اوردونوں رہنمائوں نے اس نااہل حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے اپنا مستقبل کا لائحہ عمل طے کر لیا ہے۔اس ملاقات کے دوسرے سیشن،جوون توون ہوا، کے بعد ایک مشترکہ اعلامیئے میں کہا گیا کہ مہنگائی بے روزگاری کا خاتمہ کر کےعوام کورلیف دیا جائےاورعوام کےاوپر سےآئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر لگائے گئے ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے۔ سیاسی لوگوں کو پروڈکشن آرڈر جاری کر کے اسمبلی میں اپنے ووٹر کی جانب سے بجٹ پر اظہار خیال کرنے کی مکمل آزادی دی جائے۔جبکہ وزیر اعظم اسپیکر قومی اسمبلی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کسی بھی پارلیمانی رکن کے پروڈکشن آرڈرجاری نہ کریں۔تاکہ غیر آئینی حربوں کے ذیعے لوگوں کی گرفتاریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نا اہلیت کی اس دستاویزکو اسمبلی کی ایک دو ووت کی اکثریت سے پاس کرا لے۔۔
دوسری جانب یہ بھی انوکھا کھیل اسمبلی میں جاری دیکھا کہ بجٹ پر حزبِ اختلاف کے رہنما شہباز شریف کو بھی بات کرنے نہیں دی جا رہی ہے۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اس وقت حکومت کی حکمتِ عملی یہ ہی ہے کہ اپوزیشن کے رہنمائوں کی بجٹ تقاریر تو ہوں مگر اس کے اصل اشوز پر کسی کو بات نہ کرنے دی جائے بلکہ اپنے لیڈر کے رٹائے ہوئے نعروں کو خوب زور لگا کر لگا تے رہیں۔تاکہ عوامکی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے بجٹ کو بیک ڈور سے پاس کرا لیا جائے۔جبھی تو کہتے ہیں نرم نوری کری چاپڑی سلیکشن والوں کے لال پر مصیبت کہاں سے آ پڑی۔