تحریر: قمر العمان خان یوسف زئی ملک بھر کی ٣٣ سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں نہ صرف برسر اقتدار بی جے پی بلکہ ملک بھر کی عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ضمنی انتخاب میں بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی نہ ہوسکی مگر ایک جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام پارٹیوں میں بی جے پی ١٢سیٹیں لے کر اول مقام پر رہی تو دوم مقام سماج وادی اور اس کے بعد کانگریس کو رہا۔ جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن ٣٣میں سے ١٢سیٹیں ہی بی جے پی کے کھاتے میں آنا یہ بی جے پی کے لئے شرمناک بات سمجھی جارہی ہے اور اس سے زیادہ شرمناک بات تو یہ ہے کہ خود کا حلقہ چھوڑ کر وارانسی میں اپنے جھنڈے گاڑنے والے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقہ لوک سبھا کے ایک حلقہ اسمبلی میں بھی ضمنی انتخاب ہوا ہے جس میں نہ صرف نریندر مودی کی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بلکہ ٥٧ہزار کی لیڈ سامنے والے کو مل جانے سے ہزیمیت کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس کی وجہ بی جے پی کی جانب سے لوک سبھا انتخابا ت کے بعد اچانک سے اپنا رویہ تبدیل کردینا سمجھا جارہاہے، کیونکہ لوک سبھا انتخابات کے لئے بی جے پی نے نریندر مودی کا چہرا پیش کیا تھا تو وہیں نریندر مودی نے سبھاش چندر بوس اسٹائل میں ”سب کا ساتھ سب کا وِکاس ”کا نعرہ دیا تھا اور لوک سبھا انتخابات میں اپنی یکطرفہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے تاہم یہ کامیابی بھی ہمیں اور ملک کی اکثر عوام کو مشین کی دین لگتی ہے، یہ موضوع بحث الگ چیز ہے۔ لیکن انتخابات ہو جانے کے بعد سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ صرف نعرہ ہی رہتا نظر آیا جس پر عملی اقدامات نا کے برابر دکھائی دیے ہیںجس کی زندہ مثال اترپردیش ریاست سمجھی جاسکتی ہے جہاں پر بی جے پی کی جانب سے اقلیتی فرقوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جاتے رہے۔
ایک جانب مظفر نگر سے لے کر اعظم گڑھ تک فسادات پھیلانے میں بی جے پی نے نمایاںرو ل ادا کیا تو وہیں اقلیتی طبقے کی خواتین و دوشیزائوں کی عصمت سے کھلواڑ کیا جاتا رہا، حکومت کو بدنام کرنے اور اسے اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر ڈھکے چھپے انداز میں آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، اور بی جے پی کے ہی ورکروں کی جانب سے عوام الناس کی عصمتوں سے کھلواڑ کیا جاتا رہا،جس کے تبصرے آج تک سنائی دیتے ہیں۔ جس کے بعد جہاد کی نئی اختراع کرتے ہوئے لو جہاد کا شوشہ چھوڑ کر ہندو ووٹ بینک کو یکجہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ کو کھلی چھوٹ دی گئی جس نے نازیبہ زبان کا استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی عصمت دری کر ڈالی جس پر بی جے پی نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ زہر کی اس دکان یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کا اسٹار پرچارک بنا ڈالا۔ اسی دوران ساکشی مہاراج و دیگر کو بھی حکومت اور بی جے پی کی جانب سے کھلی چھوٹ دی گئی جنہوں نے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ شروع کردیا لیکن مسلمانوںنے جمہوری انداز میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے لبوں پر تالے لگا دئیے۔
یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں مودی لہر کا نہ صرف پھگّا پھٹ پڑا بلکہ اس کا اعتراف زبردستی سے بی جے پی کے صدر بنائے گئے اور نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ کو بھی کرنا پڑا، ضمنی انتخابات کے بتائج نے نہ صرف بی جے پی بلکہ سماج وادی اور کانگریس کو بھی کہیںنہ کہیں سبق سکھلانے کا کام کیا جسے سماج وادی اور کانگریس نے سنجیدگی سے لیا ہے تو وہیں دوسری جانب خود کو ہندوستان کا راج اسمجھ بیٹھے نریندر مودی نے بھی اپنے پائوںزمین پر رکھتے ہوئے ضمنی انتخابات میں شکست کی وجوہات کی جانچ کرتے ہوئے اپنی غلطی سدھارنے کے نام پر آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ملک بھر کے مسلمانوں کو خوش کرنے کا کارنامہ انجام دے دیا۔ مودی کی مسلم نوازی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب مہاراشٹر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کو صرف ٢٤دن کا عرصہ باقی رہ گیا ہے، جب کہ ملک کی دو ریاستیں جو سیلاب کی مار جھیل رہی ہے جھارکھنڈ اور جمو کشمیر کے انتخابات بھی چند ماہ میںہونے کو ہے ایسے میں نریندر مودی کی جانب سے مسلمانوں کی حب الوطنی کا سرٹیفکیت دینا یہ مسلمانوں کی ہمدردی کم خود کے لئے میدان تیار کرنا زیادہ سمجھا جا سکتا ہے۔
غور طلب امر تو یہ ہے کہ ہندوستان کے مشینی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے امریکہ دورے سے قبل ایک انٹرنیشنل نیوز چینل سی این این کو دئیے انٹرویو میں کہا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھا یا جاسکتا، ہندوستانی مسلمان ملک کے لئے ہی جئیں گے اور ملک کے لئے ہی مریں گے۔مودی نے یہ بھی کہا کہ القاعدہ کو اس بات کا گمان ہے کہ وہ اس کے اشارے پر ناچیں گے یہ القاعدہ کی غلط فہمی ہے ہندوستان کے مسلمان جان دے دیں گے لیکن ملک کے ساتھ غداری نہیں کریں گے، جس کی دلیل بھی مودی نے پیش کی اور کہا کہ ہندوستان کے پڑوس میں افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک ہے جہاں پر القاعدہ کا کافی اثر ہے تاہم ہندوستان میں ١٧کروڑ مسلمان ہے لیکن ان میں سے القاعدہ کے رکن نہ ہونے کے برابر ہے۔ مودی کے اس بیان کی چارسوجانب حمایت کی جارہی ہے مودی اگر صحیح دل سے یہ بیان دئیے ہیں تو یہ خوش آئند بات ہے لیکن اس شخص پر کس طرح بھروسہ کیا جاسکتاہے یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے۔ کیونکہ ٢٠٠٢ میں گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہاد ت کا جام پلانے والا نریندر مودی دس سالوں میں اتنا تبدیل کیسے سے ہو سکتا ہے اگر ہو بھی چکا ہے تو پھر صرف بیان بازی کیوں عملی اقدامات کیوں نہیں یہ سوال بھی سب کو ستا رہاہے۔
Narendra Modi
کیونکہ مودی کا بیان ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد اور مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے قبل آیا ہے، جس کے چلتے ان کے اس بیان کو صر ف اور صرف سیاسی بیان ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر نریندر مودی کو مسلمانوں کی حب الوطنی پر اتنا ہی فخر ہے تو وہ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر نطفہ نا تحقیق پروین توگڑیا جیسوں کو لگام کیوں نہیں کستے، جو آئے دن مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ نریندر مودی اپنی ہی بی جے پی کی اترپردیش یونٹ پر لگام کیوںنہیں کستے جو صرف اور صرف مسلمانوں کوٹارگیٹ کئے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی اپنی اس آر ایس ایس جس کی وہ غلامی برسوں سے کرتے آئے ہیں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھاتے کہ مسلمان ملک سے غداری نہیں کرسکتا، وہی نریندر مودی لو جہاد و دیگر معاملات کے معاملے میں مسلمانوں کے تعلق سے کھل کر کیوں سامنے نہیں آتے جب ان حیلو بہانوں سے حراساں کیا جاتاہے، اور اچانک ہی نریندر مودی کو امریکہ دورے سے قبل ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کی یاد آجاتی ہے، ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ کیونکہ مسلمان ہی ہندوستان کا سچا وفادار ہے جس نے جنگ آزادی میں اپنا خون بہاکر ملک کو آزاد کرانے میں نمایاںرول ادا کیا ہے، یہ وہی مسلمانوں کی نسل ہے جن کے آباء و اجداد نے موہن چند کرم داس گاندھی کو مہاتما گاندھی بنانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے یہ وہی علماء دین و اکابرین کی اولادیں ہیں جنہوںنے ملک کی آزادی کی خاطر جمعیة علماء کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اس کے بینر تلے نہ صرف ملک کو آزادی دلادی بلکہ آزادی کے بعد ملک کی سیاست سے خود کو علیحدہ کرکے اس تنظیم کو سماجی تنظیم بنا ڈالا او ریہی تنظیم آج ملک کی سب سے بڑی تنظیم سمجھی جا سکتی ہے ہندوستان کے مسلمانوں نے بی جے پی کے واجپائی اور آر ایس ایس کے ساورکر کی طرح انگریزوں کو معافی نامے لکھ کر دیتے ہوئے خود کو کبھی ملک کا وفادار نہیں بتلایا۔ بلکہ مسلمانوںنے ہر دم انگریزوں کی مخالفت کی اور ملک کو آزادی دلانے میںنمایاںرول ادا کیا۔ جتنا حق جنگ آزادی کے لئے دیگر اقوام کو دیا جاتاہے اتنا ہی حق مسلمانوں کا بھی جنگ آزادی کے تعلق سے ہے اور اسی لئے ہمیں ہماری حب الوطنی پر فخر ہے اس کے لئے ہمیں نریندر مودی جو بھلے ہی آج ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھا ہو اس کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نریندر مودی کل بھی گجرات کے مسلمانوں کے قاتل تھے اور آج بھی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نریندر مودی کے اس بیان کے پس پردہ جھانکتے ہوئے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے چند مفاد پرست اور منافق مسلمان نریندر مودی کے بیان کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں، جس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتاہے کیونکہ نریندر مودی کا بیان مہاراشٹر اورہریانہ کے مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی سیاسی چال بازی ہے،کیونکہ ضمنی انتخابات نے نریندر مودی کو ایسا کرنے پر مجبور کردیاہے، اگر نریندر مودی مسلمانوں کی حب الوطنی کے تعلق سے مثبت بات کرتا ہے تو یہ پورے ملک میںموضوع بحث رہے گا اور مسلمان دیگر کام چھوڑ کر صرف اس پر ہی بحث کرتے نظر آئیں گے اور یہی ہورہا ہے جس کا فائدہ نریندر مودی کو ہوگا اور نریندر مودی کی حمایت میں پہلے سے ہی چند منافق تیار بیٹھے تھے، جنہوںنے نریندر مودی کا بیان ٹی وی پر نشر ہونے کے پانچ منٹ بعد ہی ان کی حمایت میں گیت گانے شروع کردئیے سوچنے کی بات ہے کیااچانک یہ لوگ ٹی وی دیکھے اور اس پر نریندر مودی کا بیان سن کر خود بھی ٹی وی پر آٹپکے یہ ایک سوچا سمجھا اور منصوبہ بند انٹرویو ہے جس کے ذریعہ نریندر مودی مہاراشٹر اور ہریانہ کے مسلمانوں کے ووٹ بینک میں دراڑ پیدا کرتے ہوئے انہیں اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں، اس لئے نہ صرف ہریانہ اور مہاراشٹر کے مسلمانوں کو نریندر مودی کے دھوکے میں نہ آنا چاہئے بلکہ پورے ملک کے مسلمان نریندر مودی کی سیاسی چال بازیوں سے گریز کریں اور اس بات کا مطالبہ کریں گے اگر نریندر مودی کے دل میں مسلمانوں کے لئے واقعی ہمدردی ہے تو پھر سب سے پہلے وہ ان لوگوں پر لگام کسے جو آئے دن مسلمانوں کو حراساں کررہے ہیں اور اپنی پارٹی بی جے پی کو بھی ا س بات کی تاکید کریں کہ وہ مسلمانوں سے ہمدردی کا مظاہرہ صرف اخبارات اور نیوز چینلوں پر کرنے کے بجائے عملی طور پر کریں، اور نریندر مودی صرف ٹی وی پر انٹرویو دینے کے بجائے عملی طور پر مسلمانوں کے تحفظ کی بات کریں تب کچھ سوچا جا سکتا ہے۔ تاہم صرف انٹرویو دینے سے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل نہیں کی جاسکتی اور وہ بھی ایسے شخص کو جو ماضی میں مسلمانوں کا قاتل رہ چکا ہے۔ اس لئے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مہاراشٹر اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ جمو و کشمیر اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، کیونکہ نریندر مودی تو ایک اکیلا ہے لیکن ہمارے پاس میر جعفر اور میر صادق کون نہیںجو نریندر مودی کے لئے راہ ِ ہموار کریں، اس لئے اسمبلی انتخابات میں وہ غلطی نہ ہونی چاہئے جو ہم سے لوک سبھا میں ہوئی ہے، اس کے لئے مہاراشٹر سے لے کر پورے ملک تک مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پرآکر اس بارے میں سوچنا ہی ہوگا ورنہ ہمیشہ کی طرح ہندوستان کے حب الوطن مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی اور انہیں معافی نامے لکھ کر دینے والے واجپائی اور ساورکر کے شاگردوں کا سرٹیفکیٹ لیتے رہنا پڑے گا۔