تحریر: محمد اشفاق راجا وزیر اعظم نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیری رہنما برہان وانی اور دوسرے کشمیریوں کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقِ خود ارادیت کشمیری عوام کا حق ہے نہتے کشمیریوں پر مظالم بند کئے جائیں بے گناہ شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت اور جارحیت کا استعمال انتہائی قابل مذمت ہے ایسے ظالمانہ حربوں سے جموں و کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا وزیر اعظم نے کشمیری قیادت کی مسلسل نظر بندیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت کئے گئے اپنے وعدوں کی بھی تکمیل کرے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے بھی برہان وانی اور دیگر بے گناہ کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے کر ہی مسئلہ کشمیر حل کیا جا سکتا ہے۔
دو روز قبل مقبوضہ کشمیر میں جو مظاہرے شروع ہوئے تھے وہ اب پوری ریاست میں پھیل چکے ہیں، کرفیو کے باوجود نوجوانوں کی بڑی تعداد نے احتجاج جاری رکھا۔ یہ کشمیری نوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ حق خود ارادیت کی جدوجہد میں اب کشمیریوں کی نئی نسل بھی میدان جہاد میں کود چکی اور جدوجہد کا پرچم تھام چکی ہے اور اس راہ میں اپنی زندگیوں کا نذرانہ بے جگری کے ساتھ پیش کر رہی ہے جس سے یہ بات اب عیاں ہو گئی ہے کہ جو قوم عشروں سے قربانیاں پیش کرتی آ رہی ہے اسے زیادہ دیر تک اس کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
United Nations
اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کشمیر کے دیرینہ مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر توجہ دے کیونکہ اب حیلوں بہانوں اور ٹال مٹول سے وقت گزاری کا زمانہ نہیں رہا، بھارت نے جتنا وقت گذارنا تھا گذار لیا ہے کشمیری نوجوانوں کا جذبہ اب یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ انصاف جو ان کا حق ہے وہ انہیں دے دیا جائے۔ ریاست میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے سیکیورٹی فورسز تشدد پر اتر آتی ہیں اور مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کنٹرول کرنے اور دبانے کی کوشش کرتی ہیں تازہ مظاہروں میں32کشمیری شہید ہو چکے ہیں 300سے زائد زخمی ہیں لیکن احتجاج کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔
بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے جنہیں گھر پر نظر بند کیا گیا، کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں نے وسیع پیمانے پر احتجاج شروع کر رکھا ہے جسے کچلنے کے لئے بھارتی فوج کشمیریو ں کے قتل عام پر اتر آئی ہے یہ نوجوان برہان وانی سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں جو نوجوان کشمیری رہنما تھے دوسرے کشمیری رہنما نوجوانوں کو نظم و ضبط کی تلقین کرتے ہیں لیکن ان کے جذبات بے قابو ہو گئے ہیں۔ فوج کی طرف سے نوجوانوں کے سینوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔ اس ظلم پر ہم پاکستان اور دوسرے مسلمان ملکوں کی جانب دیکھ رہے ہیں پاکستان کو ان مظالم پر خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ بھارت دنیا میں جھوٹ پھیلا رہا ہے اور اس کے سفارت کار دنیا کو جھوٹ بول کر متاثر کر رہے ہیں پاکستان اور اسلامی ملکوں کو کشمیریوں کے سچے مقصد کو عالمی برادری کے سامنے رکھنا چاہئے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر زیادہ فعال ہونا پڑے گا۔انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جدوجہد آزادی کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے برہان وانی نے نوجوانوں کو نیا جذبہ عطا کیا ان کا مشن جاری رکھیں گے۔ انہوں نے برہان وانی کی تدفین کے موقع پر جمع عوام کے سمندر کو ریفرنڈم قرار دیتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس شہریوں کے قتل میں ملوث ہے۔
Movement Kashmir
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی عشروں پر پھیلی ہوئی ہے اور مختلف ادوار میں کئی رنگوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔88ء میں جو تحریک کشمیریوں نے شروع کی تھی اب اسے بھی کم و بیش 30 سال ہو رہے ہیں تحریکوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے اتنے طویل عرصے تک کوئی تحریک جذبے کے بغیر زندہ و توانا نہیں رہ سکتی اگر کشمیریوں کی تحریک زندہ ہے اور آج بھی کشمیری نوجوان اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر نہتے ہو کر بھی قربانیاں دے رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ کیا جذبہ ہے جو انہیں اس پر ابھارتا ہے؟ وقتی سیاسی مصلحتوں اور ہنگامی سوچ کے تحت اتنی بڑی قربانی پیش نہیں کی جا سکتی۔ مظاہرہ کرنے والے کشمیری مسلح نہیں ہیں۔
اگر ہوتے تو پتھروں اور غلیلوں کے ساتھ تو جدید ترین اسلحے کا مقابلہ نہ کر رہے ہوتے، دنیا میں اس وقت جہاں جہاں بھی مسلح بغاوتیں ہو رہی ہیں ان میں اور کشمیریوں کی جدوجہد میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ دنیا بھر میں افواجِ قاہرہ کا مقابلہ جدید ہتھیاروں سے کیا جا رہا ہے اور ہر لحاظ سے مسلح افواج کو پسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے۔ کشمیری بھی اگر جدید ہتھیاروں سے مسلح ہوتے تو بھارتی سورما زیادہ عرصے تک ان کے مقابل کھڑے نہ رہ سکتے۔ بھارتی فوجیوں کو معلوم ہے کہ پتھر اور غلیلوں سے چلائی جانے والی کنکریاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اس لئے وہ بے خوف ہو کر باقاعدہ قتل عام پر اترے ہوئے ہیں ان حالات میں بھی بھارتی حکومت ڈھیٹ ہو کر پاکستان پر الزام تراشی سے باز نہیں آ رہی، پاکستان اگر کشمیریوں کو مسلح کرتا تو ان کے ہاتھوں میں پتھر نہیں جدید اسلحہ ہوتا۔
کشمیر میں اس وقت کم و بیش 8لاکھ بھارتی فوج موجود ہے جو ہر لحاظ سے مسلح ہے اور کشمیریوں پر بے دریغ گولیاں چلا رہی ہے اس کے باوجود دوسرے علاقوں سے کمک بھیجی جا رہی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ایک جانب جذبہ ہے جو ڈٹا ہوا ہے اور دوسری جانب بزدلوں کے ہتھیار ہیں جو جذبہ حریت کو کچلنے کے لئے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں، وقتاً فوقتاً کشمیر میں ابلنے والے لاوے سے یہی سبق ملتا ہے کہ اب اس مسئلے کو دبانا اور دبائے رکھنا ممکن نہیں اس لئے بہتر لائحہ عمل یہی ہے کہ بھارت اناکے خول سے باہر نکل کر اب اس دیرینہ مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے بصورت دیگر یہ تحریک پھیل کر باقی صوبوں کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے جہاں پہلے ہی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں یہ لوگ کشمیریوں کی طرح نہتے بھی نہیں ہیں وہ بھارتی فوج کے مقابلے میں پوری طرح مسلح ہیں۔