کشمیریوں کو حق کب ملے گا؟

Kashmir

Kashmir

پانچ جنوری ،یوم حق خود ارادیت کے موقع پر خصوصی ایڈیشن کے لئے تحریر
مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل نہ ہونے سے اس عالمی ادارے کی بے حسی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ کشمیری عوام کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق دلوانے کے لئے موثر کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادیں جموں کشمیر کے مسئلہ کی متنازعہ حیثیت کی قانونی بنیاد فراہم کرتی ہیں ،لہٰذا اس حوالے سے ان قراردادوں کی اہمیت اور اعتباریت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 1949 ا قوام متحدہ نے کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق ‘حق خود ارادیت ‘ کے حوالے سے باضابطہ ایک قرارداد پاس کی لیکن تقریباً سات دہائیوں کا عرصہ گذر گیا مگر اقوام متحدہ اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنا سکا جس سے نہ صرف اس ادارے کی ساکھ اور اعتباریت مثاثر ہوئی ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں کشمیر ی عوام کو گذشتہ 67 برسوں بے پناہ مظالم اور مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

کشمیری عوام اپنی مبنی برحق جدوجہد کو منطقی انجام تک لے جانے کے لئے ہر سطح پر اپنی پرُ امن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور 5 جنوری کا تاریخ ساز دن کشمیری عوام اور قیادت کو عزم اور استقامت کے ساتھ اپنی منصفانہ جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کرتاہے۔دونوں اطراف کے کشمیری عوام پانچ جنوری کو یوم حق خودارادیت مناتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے 5 جنوری 1949ء کی قرارداد منظور کی تھی جس میں پاکستان اور بھارت کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اس کا بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے حق خودرادیت دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان میں حق خودارادیت کے موضوع پر سیمینار، جلسے، جلوس اور مظاہرے ہوں گے۔اس دن کومنانے کا مقصد اقوام متحدہ کو قراردادوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرانا ہے،جن کے ذریعے کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 5 جنوری 1949ء کو منظور کی جانے والی قرارداد میں کشمیریوں کا یہ حق تسلیم کیا گیا تھاکہ وہ آزاد طریقے سے ووٹ کے ذریعے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ اپنا مقدر وابستہ کر سکتے ہیں۔ اس قرارداد کو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی حمایت حاصل تھی۔

India

India

اس قرارداد کی منظوری کے بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی ہوئی تھی لیکن جنگ بندی کے باوجود اقوام متحدہ اپنی قرارداد پر عمل درآمد نہ کروا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قراردادوں پر بھارت نے واشگاف طریقے سے عمل درآمد کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ وقت یوں ہی گزرتا چلا گیا۔ پاکستان اور بھارت میں کشمیر ایک بنیادی مسئلہ کے طور پر موجود رہا۔ یورپی یونین نے بھارت پاکستان کا اس بات پر خیر مقدم کیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں یقین رکھتے ہیں تاہم اس دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے اور بات چیت کے دوران کشمیریوں کو اس میں شامل کرنا ضروری ہے۔ تاکہ ایک ایسا حل نکل سکے جو تمام فریقین کو قابل قبول ہو۔ یورپی یونین کے پرنسپل ایڈوائزر خارجہ امور ” فیڈروسرانو ” نے کہا کہ یورپی یونین کو ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں پوری علمیت ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اسلام آباد اور نئی دہلی دورے کے دوران یورپی یونین کے وفد نے صورت حال کا جائزہ لیا ہے اور یورپی یونین کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے کشمیریوں کو بات چیت میں شامل کیا جائے۔ یورپی یونین کے صدر نے انکشاف کیا کہ یورپی یونین کے مشن نے ریاست جموں و کشمیر کے دورے کے دوران اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ پولیس ، فوج ، پیرا ملٹری فورس انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں اور یورپی یونین چاہتی ہے کہ انہیں لگام دینے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے سلسلے کو روکا جا سکے۔ مرکزی اور ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ آر پار سول سوسائٹیز ، سفارتکاروں ، دانشوروں اور نوجوانوں کے ساتھ ان کا قریبی رابطہ ہے اور یورپی یونین چاہتی ہیں کہ سول سوسائٹیز ، سفارتکار ، دانشور اور سیاستکار ان علاقوں کا دورہ کریں جو گزشتہ 24 برسوں کے دوران بہت متاثر ہوئے ہیں اور انہیں اس بات کا شدت کے ساتھ احساس رہتا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کرنے کے لئے اور ناانصافیوں سے نجات دلانے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ہیں۔

یورپی یونین نے کہا کہ مذکورہ گروپوں کو ایسے علاقوں کا دورہ کر کے نوجوانوں اور خواتین کو یقین دلانا ہو گا کہ اب ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں ہو گی اور بھارت کو یہ بات یقینی بنانی ہو گی کہ وہ پولیس و فورسز اور فوج کو جوابدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔مذہبی ،سیاسی و کشمیری جماعتوں کے قائدین نے یورپی یونین کی طرف سے جاری کردہ اس بیان کہ” بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں میںملوث ہیں جنہیں لگام دینے کی ضرورت ہے” پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کے بیان کے بعد ان سیاستدانوںکی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر غاصب بھارت سے دوستی و تجارت کیلئے بے چین نظر آتے ہیں اور اس کیلئے ملکی سلامتی و خودمختاری پرمبنی سابقہ پالیسیوں سے بھی انحراف کیاجارہا ہے۔ بھارت کو یورپی یونین کی بات ماننی چاہئے اور مظالم کو ختم کر کے کشمیر سے اپنی فوج واپس بلانی چاہیے تا کہ کشمیریوں کو آزادی ملے اور وہ سکھ کے ساتھ رہ سکیں۔

امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید، ملی یکجہتی کونسل کے صدر صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر،عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ،جماعت اہلحدیث کے سربراہ حافظ عبدالغفار روپڑی ،جماعة الدعوة آزاد کشمیرکے امیر مولانا عبدالعزیز علوی نے کہا کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ کشمیری و پاکستانی قوم کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دے ، عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی سے آگاہ کرنے کیلئے پوری دنیا میں موجود اپنے سفارت خانوںکو متحرک کیاجائے اور مضبوط کشمیر پالیسی وضع کی جائے تاکہ مظلوم کشمیری بھائیوں کی ہر ممکن مدد کی جا سکے۔ انہوںنے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اٹھارہ کروڑ عوام ایک ہی موقف پر متحد ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ اسی خاطر کشمیری مسلمان پاکستان کی سب سے پہلی دفاعی لائن کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر غاصب بھارت نے قبضہ جما رکھا ہے اوروہاں بدترین انسانی حقو ق کی پامالیوں میں مصروف ہے۔ بھارت نے اپنا ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا لیکن اس کے باوجود کشمیریوں کے عزم و حوصلہ میں کمی نہیں آ سکی۔ کشمیر میں بھارتی مظالم و بربریت کا دشمن نے بھی اعتراف کر لیاجس کا مطلب ہے کہ ہماری کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان پر مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا درست ہے ،انڈیا نے کشمیر پر غلط قبضہ کیا،یورپی یونین جس کے نزدیک مسلمانوں کے قتل عام کی کوئی حیثیت نہیں اسکی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا کشمیری مسلمانوں پر کتنے مظالم ڈھا رہا ہے ،انڈیا کو یورپی یونین کی بات ماننی چاہئے اور مظالم کو ختم کر کے کشمیر سے اپنی فوج واپس بلانی چاہیے تا کہ کشمیریوں کو آزادی ملے اور وہ سکھ کے ساتھ رہ سکیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کشمیر میں مسلمانو ں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے،ایک ایک قبر سے درجنوں لاشیں نکل رہی ہیں جب تک دنیا کشمیر کے پیچھے کھڑی نہیں ہو گی مظالم نہیں رکیں گے اور جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا تب تک پاکستان اور انڈیا میں صلح نہیں ہو سکتی۔ حکومت پاکستان کو یورپی یونین کی رپورٹ پر مضبوط موقف کے ساتھ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے۔ بھارت کی آٹھ لاکھ قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر کو ملٹری کیمپ میں تبدیل کررکھا ہے۔جہاں بھارتی فوج نے نوجوان نسل کی ٹارگٹ کلنگ،زیر حراست ہلاکتوں سمیت کالے قوانین کے نفاذ اور حریت قیادت کی نظر بندیوں کے ذریعے کشمیریوں کے حقوق کو غصب کررکھا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں مہذب دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے بین الاقوامی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹنگ،دنیا کے نام نہادسیکولر اسٹیٹ بھارت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔آزادی کشمیریوں کا مقدر بن چکی ہے۔بھارتی حکمران ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کشمیریوں کو زیادہ عرصہ تک اپنے غاصبانہ تسلط میں نہیں رکھ سکیں گے۔کشمیر ی عوام نے جو پرا من جدوجہد شروع کررکھی ہے وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوکر رہے گی۔دونوں اطراف کے کشمیریوں کو جد اکرنے والی خونی لکیر مٹ کررہے گی۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472