ہمیں میاں نواز شریف صاحب کی وزارتِ عظمیٰ پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر وہ جَلاوطنی سے پہلے والے میاں صاحب ہوتے لیکن اب تو مُدّت ہوئی ، اُنہوں نے ”کھڑاک” کرنا بند کر دیا ہے۔ یہ” دونوں بھائی ”جب جی چاہتا ہے انتہائی خاموشی سے باہر کھِسک لیتے ہیں اور پلٹتے ہیں تو کبھی اربوں ڈالر اور کبھی اربوں پاؤنڈز سے جھولیاں بھر کے لوٹتے ہیں بندہ پوچھے ہم نے ایسی دولت کا کیا کرنا ہے۔
جس میں کوئی ”دھوم دَھڑکا” ہی نہ ہو۔ اُدھر اسحاق ڈار صاحب ہیں جو ڈالروں میں گوڈے گوڈے”کھُب” چُکے ہیں شنید ہے کہ اب ہمارے اثاثے چودہ ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں لیکن ہم تو پھر بھی یہی کہیں گے کہ ہمیں ایسی ”ٹھنڈی ٹھار” جمہوریت ہر گِز قبول نہیں۔ اگر صرف خادمِ اعلیٰ ہی جمہوریت کو گرم رکھنے کی کوئی سبیل کر لیتے تو ہم صبر شکر کرکے بیٹھ رہتے۔ پہلے تو شیخ رشید صاحب عسکری قیادت کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اُس نے ”سَتّو” پی رکھے ہیں لیکن اب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومت نے ”سَتّو” پی رکھے ہیں اِس لیے ہم تو اُسی کا ساتھ دیں گے جو قوم کا لہو گرم رکھنے کے بہانے تلاش کرے تحقیق کہ یہ کام یا تو ہمارے کپتان صاحب بطریقِ احسن سَر انجام دے سکتے ہیں یا پھر مُرشد طاہر القادری۔
محترم عمران خاں کے اندازِ سیاست سے جَل بھُن کر کباب ہونے والے کم از کم یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ خاں صاحب کی سیاست کے رنگ انوکھے اور چوکھے ہیں ورنہ کون اتنا جرّی اور دلیر ہو گا جو بیک وقت نواز لیگ ، سابق چیف جسٹس آف پاکستان ، الیکشن کمیشن، نگران وزیرِ اعظم ، پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ ، ریٹرننگ آفیسر ، ملٹری انٹیلی جینس اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو للکارتے ہوئے اُن پر الیکشن 2013ء میں کھُلی دھاندلی کا الزام لگائے۔
ہماری ”سونامی” تو سب کچھ بہا لے جانے کو تیار تھی اور خاں صاحب نے توکچھ اینکرز کو پورے اعتماد کے ساتھ یہ لکھ کر بھی دیا تھا کہ تحریکِ انصاف 125 سے زاید سیٹوں پر کامیاب ہو گی اور دروغ بَر گَردنِ راوی، اپنے بیٹوں کو بھی کہا تھا کہ اب اُن سے اگلی ملاقات بطور وزیرِ اعظم ہو گی لیکن ہوا یہ کہ سبھی نے” ایکا ”کر لیا اور کہا تو میاں نواز شریف صاحب نے تھا کہ ”سارے رَل کے سانوں پَے گئے نے” لیکن عملی طور پر ”ہَتھ” ہمارے کپتان صاحب کے ساتھ ہو گیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا اور چڑیا والے صاحب ”پینتیس پنکچر” نہ لگاتے تو خاں صاحب نے تو ایک بال سے تین وکٹیں گِرا ہی دینی تھیں ۔خیبر پختونخوا میں البتہ ” فیئر” الیکشن ہوئے اسی لیے تحریکِ انصاف جیت بھی گئی اور حکومت بھی بنا لی ۔وجہ یقیناََیہ تھی کہ طالبان کے خود کُش حملوں کے خوف سے کسی نے خیبر پختونخوا کا رُخ نہیں کیا اور وہاں دھاندلی نہیں ہو سکی۔
جس اعتماد سے کپتان صاحب بات کرتے ہیں، اُس اعتماد کو لوگوں نے انانیت کا نام دے دیتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ خاں صاحب اپنی انا کے خول میں بند ہیں جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انانیت سے زیادہ غیرت و حمیت ہے اور غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا ہمیں یقین ہے کہ 11 مئی کو اُٹھنے والی تحریک کے نتیجے میں یا تو ہمارے خاں صاحب وزیرِاعظم بَن جائیں گے یا پھر کوئی طالع آزما جمہوریت کی بساط لپیٹ دے گا۔ اگر ”حاضر سٹاک” سیاستدانوں کو ہماری وزارتِ عظمیٰ قبول ہے تو ٹھیک وگرنہ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔
Imran Khan
عمران خاں صاحب کو ادھورے سَچ سے نفرت ہے۔ وہ جب بھی بولتے ہیں ، پورا سچ بولتے ہیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر بولتے ہیں ۔اُنہوں نے ISI کی حمایت میںپاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو خوب لَتاڑا اور اُس کا مکمل بائیکاٹ کر دیا لیکن دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ لاہور میں MI کے حاضر سروس بریگیڈیئر نے دھاندلی کرکے نواز لیگ کو جتوایا ۔اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی دھاندلی میں شریک تھے اِس لیے اُن پر بھی آرٹیکل چھ لاگو ہونا چاہیے۔
اب تو ”سینئر لکھاری” نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ چیف جسٹس صاحب دھاندلی میں شریک تھے ۔اِن دنوںسینئر لکھاری کا میلان ایک دفعہ پھر تحریکِ انصاف کی طرف ہو گیا ہے لیکن اب ہم ”سونامیے” اُن پر اعتبارکرنے والے نہیں۔ویسے بھی تحریکِ انصاف کو اتنے ”لائق فائق” لوگوں کی ضرورت نہیں ۔ اب مخالفین شور مچا رہے ہیں کہ خاں صاحب یا تو اپنے الزامات کے ثبوت پیش کریں یا پھر خود آرٹیکل چھ کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئین کی رو سے افواجِ پاکستان اور عدلیہ کو بدنام کرنے والے پر آرٹیکل چھ لاگو ہوتا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ خاں صاحب کے پاس ثبوت موجود ہونگے اور وہ 11مئی کو اسلام آباد کے ڈی چوک میںایک ایک کرکے سارے ثبوت سامنے لے آئیں گے اور ہر ثبوت سے پہلے ایک نغمہ بھی سنایا جائے گا ۔ویسے بھی شیخ رشید صاحب کے عوامی رنگ ، شاہ محمود قریشی کے مدبرانہ انداز اور خاں صاحب کے ”پورے سَچ” کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے؟۔
خاں صاحب نے بہت اچھّا کیا جو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو الگ سے تحریک چلانے کے لیے کہا کیونکہ ”دو مُلّاؤں میں مُرغی حرام” ہونے کا شدید خطرہ تھا جب دو عظیم ترین لیڈر کسی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو پھر یہ فیصلہ کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے کہ”کِسے یاد رکھوں ، کِسے بھول جاؤں”۔ ویسے بھی ہم خاں صاحب کی سیاست سے متاثر ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری تو ہیں ہی ہمارے مُرشد اِس لیے کم از کم ہم تو یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ کا تاج کس کے سَر پر سجایا جائے۔
محترم عمران خاں کی ڈاکٹر طاہر القادری سے بہ اندازِ حکیمانہ پیچھا چھڑانے کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ خاں صاحب طالبان کے اتنے بڑے حامی ہیں کہ لوگوں نے اُنہیں ”طالبان خاں” کہنا شروع کر دیا جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری تو طالبان کے خلاف سَتّر صفحات پر مشتمل فتویٰ صادر فرما چکے ہیں ۔اِس لیے اگر دونوں ایک ہی پلیٹ فارم استعمال کرتے تو وہ تو ”چُوں چُوں کا مربّہ ” بَن جاتی اور کتنا عجیب محسوس ہوتا کہ ایک ہی سٹیج پہ خاں صاحب طالبان سے مذاکرات کے حق میں دلائل دے رہے۔
ہوتے اور اُسی سٹیج پہ ڈاکٹر طاہر القادری طالبان کے خلاف فتویٰ صادر فرما رہے ہوتے ۔اِس لیے یہی بہترہے کہ” سونامی ”فاتح اسلام آباد بَن کے اُبھرے اور ڈاکٹر طاہر القادری راولپنڈی کو فتح کریں ۔یہ فیصلہ بعد میں کر لیں گے کہ کِس کے حصّے میں کیا آئے گا۔کچھ حاسدیہ کہتے ہیں کہ 11مئی کو واقعی آخری معرکہ ہو گا جس کے بعد مولانا طاہر القادری ایک دفعہ پھر کینیڈا چلے جائیں گے ،شیخ رشید احمد اپنی لال حویلی کے تھڑے پہ بیٹھ رہیں گے اور خاں صاحب کی سونامی ندی نالے کی شکل اختیار کر لے گی ۔رہی پورے سچ کی بات تو کپتان صاحب نے تو کبھی ادھورا سچ بھی نہیں بولا ، پورے سچ کی بھلا اُنہیں توفیق کہاں ۔ لیکن یہ سب کَج بحثیاں ہیں اور ہم کَج بحثوں سے مَتھا نہیں لگاتے۔