خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں اپنے نفس اور ذات کا مکمل شعور اور اپنے آپ کا حد سے بڑھا ہوا احساس۔ اسی طرح قرآن میں ارشاد ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا تو بے شک اس نے اپنے رب کو پہچان لیا علامہ محمد اقبال کے خیال کے مطابق خودی سے انسان ایسا فرد بن سکتا ہے جو اپنی ذات میں مکمل مرکز ہو جتنا وہ خدا کے قریب ہوگااس قدر اس کی انفرادیت زیادہ ہو گی ایسا ہر گز نہیں کہ وہ آخرکار خدا میں جذب ہو جائے خودی کی حیثیت اس قطرہ بے مایہ کی طرح نہیں جو دریا میں جاکر فنا ہوجائے اور اپنی ہستی کو گم کر دے بلکہ اس قطرے کی سی ہے جو دریا میں جا کر گوہر بنے دنیا میں ہر چیز کی خودی ہوتی ہے خواہ وہ ایک معمولی چیز ہو یا ایک پہاڑ مگر انسانی خودی کا مقام انسان کے دل میں ہے۔
خودی کا نشمین تیرے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
انسان کو اپنی خودی بنانے میں سب سے پہلے اطاعت الہی کی ضروریات ہوتی ہے یعنی ہمیں خدا وند کریم کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے یعنی ہر لحاظ سے اپنی ہستی کو مٹا کر خدا کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے اس کے بعد ہمیں اپنے نفس کو کنٹرول کرنا ہے اس میں نفسیاتی خوہشات وغیرہ جب ہم ان دنوں مراحل کو عبور کرلیتے ہے تو ہمیں خدا وند کی طرف سے قربت الہی حاصل ہو جا تی ہے جس کے بعد ہمیں دنیا کا لالچ نہیں ہوتا ہے ۔جو شخص اس منزل پر پہنچ جاتا ہے وہ اس دنیا میں خلیفہ اللہ ہوتا ہے وہ کامل خودی کا مالک اور انسانیت کا انبیائے مقصود ہوتا ہے یعنی اس کی زندگی میں آکر حیات اپنے مرتبہ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔
کانئات کے پچیدہ مسائل اس کی نظر میں سہل معلوم ہوتی ہے اور اٰعلی ترین قوت اور بہترین عمل دونوں کا حاصل ہوتاہے اس کی زندگی میں فکر اور عمل جبلت و ادراک سب ایک ہوجاتے ہیں انسان اپنی خودی کو مٹا کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس پر اسے اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہو جاتی ہے اور وہ دنیا کی چیزوں سے نفرت کرتا ہے یعنی لالچ سے ے۔ اس میں خدا کی طرف سے چند خصوصیات داخل ہو جاتی ہیں جن میں وحدت یعنی اس کا ایمان ہے کہ خدا وند کریم ایک ہیں ان کا کوئی ہمسر نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی مقابلہ کر سکتا ہے اس کے بعد ان میں ایک طرح کی خلوت پیدا ہو جاتی ہے جس سے ان کو بغیر مانگے سب کچھ مل جاتا ہے اور ان میں لوگوں کی پہچان کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جس کی بدولت وہ ہم کو صراط مستقیم پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ وہ ہم کو روحانیت کی رو سے دیکھ لیتے ہیں۔
اس لئے ہمیں اپنے اندر سے لالچ و حرص کو نکال کر ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرنی چاہیے جس کی بدولت ہم اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گے اور ہم اس دنیا ء فانی کے امتحان سے پاس ہو جائیں گے بس اس کے لئے ہمیں اپنے اندر خودی پیدا کرنی ہو گی اور بہت مشکل کام بھی ہے اور نہایت آسان بھی۔