تحریر : چوہدری غلام غوث ماں جی انتہائی افسردہ اور پریشان تھیں میں متواتر اُن کے چہرے پر نظریں جمائے دیکھ رہا تھا اُن کے دل میں چھپا کرب بے قابو ہو کر چہرے کے ذریعے سے باہر آنا چاہتا تھا کہ اس کیفیت کے دوران میں نے خود ہی پوچھ لیا امی جی کیا وجہ ہے کہ آپ اتنے افسردہ اور پریشان ہیں اور اس پریشانی نے آپ کو گُم سُم کر رکھا ہے میرے فقرے نے شاید ماں جی کی پریشان حال کیفیت کو تھوڑا سا ریلیف دیا ٹھنڈی آہ بھری اور بولیں بیٹے آج ایک دل ہلا دینے والے واقعے نے مجھے اس اندوہناک کیفیت میں لا کھڑا کیا ہے جس کا تم پوچھ رہے ہو میں آج کالونی کے جنرل سٹور پر دھاگے کی نلکی خریدنے کے لیے گئی تو وہاں پہلے سے موجود ایک خاتون نے میرے سامنے دوکاندار سے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے آدھ پاؤ گھی، ایک چھٹانک سُرخ مرچ، ایک کلو آٹا اور ایک صابن کی ٹکیہ دے دو اور یہ قدغن لگائی کہ میرے پاس صرف 100روپے ہیں اور مذکورہ چیزیں اس بجٹ سے زیادہ کی نہ ہوں میں نے اُس خاتون کو نہ جانتے ہوئے بھی دوکاندار سے کہا میری اس بہن کو اگر اس سے زیادہ خورد و نوش کی اشیائے ضروری درکار ہیں تو ان کی خواہش پر دے دی جائیں اور باقی ماندہ رقم میں اپنی جیب سے ادا کر دوں گی دوکاندار نے اُس خاتون سے پوچھا تو اُس نے انتہائی عاجزی سے شکریئے کے ساتھ میری پیشکش مسترد کر دی اور اپنی خود داری کا بھرم قائم رکھا۔ میرے بیٹے میں اُس وقت سے پریشان ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری ساری اولاد کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازرکھا ہے اور ایسی بھی بدقسمت مائیں ہیں جو اپنی اولاد کا پیٹ بھرنے کے لیے ایک وقت کے کھانے پر تکیہ کرکے صبر و شُکر کا پہاڑ بن جاتی ہیں میں اُس وقت سے اس کرم نوازی پر اللہ کا شُکر ادا کر رہی ہوں۔
وہ خاتون میرے دل و دماغ کی سکرین پر چھائی ہوئی ہے۔ ماں جی نے مجھے نصیحت کی کہ اللہ نے جس طرح سے تجھے اپنی نعمتوں سے نواز رکھا ہے تیرا شکر اُس پائے کا بالکل بھی نہیں شُکر، عاجزی اور فکر کو بڑھاؤ ورنہ وہ بڑا بے پرواہ ہے وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ماں جی نے نصیحت آموز گفتگو کر کے میرے تفکّر میں اضافہ کر دیا، بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ماں جی چونکہ پسِ منظر کے لحاظ سے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں تو اُنہوں نے مجھے اپنے بڑوں کا ایک ایسا قول سنایا جو دُنیا کی معاشیات میں خود انحصاری کا سب سے برا فلسفہ معلوم ہوا بلکہ یقیناً ہے ماں جی نے کہا کہ ہمارے بڑے کہتے تھے کہ زمیندارہ کرنے والا جو شخص اشیائے خورد و نوش میں سوائے نمک کے اگر کوئی چیزبازار سے خریدتا ہے تو ہم اُسے اپنی زمیندار برادری سے خارج سمجھتے ہیں۔ماں جی نے غیر ڈگری ہولڈرز اپنے بڑوں کا یہ قول مجھے سُنا کر خودانحصاری کا وہ سارا فلسفہ سمجھا دیا جو ہمارے بڑے بڑے معاشیات دان ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور آج تک سوائے قرض لینے کے خودانحصاری کی الف بھی نہیں سیکھ سکے خودداری کا درجہ تو بعد میں آتا ہے۔
قوم کے بچے کا بال بال قرض میں ڈبو دیا ہے اور معاشیات کی بہتری کی تسبیح کرتے نہیں تھکتے۔میں نے ماں جی کو بتایا کہ وفاقی بجٹ پیش ہو چکا ہے اور حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 14 ہزار روپے سے برھا کر 15 ہزار روپے کر دی ہے تو ماں جی نے فوری کہا کہ مہنگائی کے اس دور میں اس 15 ہزار روپے میں مجھے 5 افراد کے کنبے کا ماہانہ بجٹ بنا کر دکھاؤمیں کوئی دلیل دیتا ، کوشش کرتا، میں نے فوراً ہی ہاتھ کھڑے کر دیئے میری بے بسی دیکھ کر بولیں چلوشاید بجٹ بنانا تمہارے بس کی بات نہیں مگر مجھے یہ تو بتاؤ کہ 15 ہزار روپے لینے والے مزدور کے کنبے کا گزارہ کیسے ہوتا ہے میں نے ماں جی کے اس سوال کا جواب دینے کی ٹھان لی اور عرض کیا ماں جی یہ قدرت کا کمال ہے کہ وہ مزدور کی محنت کی عظمت کے طفیل اُس کے بچوں میں صبر و استقلال اور استقامت جیسی اعلیٰ صفات پیدا کر دیتی ہے یہ 15 ہزار روپے ماہانہ لینے والے لوگ اللہ کے صابر اور شاکر بندے ہوتے ہیں جنہیں اللہ اپنا دوست کہتا ہے یہ اللہ کے دوست اپنی ضروریاتِ زندگی روک کر اپنے اوپر جبر کرکے استقامت کا پہاڑ بن کر شب و روز گزارتے ہوئے خودداری کی مثال بن جاتے ہیں۔ جس سے قدرت اپنے ان دوستوں سے خوش ہو کر معاشرے میں توازن پیدا کر دیتی ہے اُن کے یہ اوصاف معاشرے کی بقا کے ضامن بن جاتے ہیں اور اللہ اپنے دوستوں سے ناراض نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ہماری کرتوتوں کے عوض اللہ کا عذاب نازل نہیں ہوتا۔ ماں جی 15 ہزار روپے میں فی زمانہ 5 افراد کے ایک کنبے کا ماہانہ بجٹ تیار کرنا دُنیا کے شوکت عزیزوں اور اسحاق ڈاروں کے بس کی بات نہیں یہ محض اللہ کا کرم اور فضل ہے جس کی وجہ سے یہ نظامِ کائنات رواں دواں ہے۔
ماں جی نے میرے جواب سے کافی حد تک اتفاق کیا اور کہا کہ میں نے تو صرف بجٹ کا نام سُن رکھا ہے اس کی جزئیات اور مفہوم سے بالکل واقف نہیں مگر جہاں تک کچن چلانے کی بات ہے وہاں سوائے ایک فیصد دُنیا کی مایوس ماؤں کے جو خودکشی کی طرف مائل ہوتی ہیں باقی تمام مائیں کچن کا بجٹ بنانے کا فن جانتی ہیں قدرت نے یہ بات اُن کی فطرت میں رکھ دی ہے اس کے لیے معاشیات کی ڈگری اور ڈپلومے ضروری نہیں ماں کا اولاد کو پالنے کا قدرتی احساس اُس کو معاشیات دان بنا دیتا ہے یہ بات کرتے وقت میری ماں کی آنکھوں میں آنسو رواں دواں تھے کہ شاید اُنہیں اپنے جیسی وہ ماں دوبارہ یاد آ گئی جو جنرل سٹور سے آدھ پاؤ گھی ، ایک چھٹانک سُرخ مرچ ، ایک کلو آٹا اور ایک صابن کی ٹکیہ خرید رہی تھی اور جس نے ماں جی سے اُن کی خواہش پر مالی تعاون لینے سے انکار کر دیا تھا اور شاید اپنی خودداری بچا لی تھی۔
اسلام کے ابتدائی دور کی بات ہے کہ آقا کریم ۖ کو ایک صحابی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے آپ نے اُس کو اپنی بارگاہ میں بلوایا اُس کے لیے چند درہم قرضِ حسنہ لے کر بازار سے کلہاڑی منگوائی اور اُسے خود دستے میں ڈال کر اُس کو تھما دی اور فرمایا کہ جا کر محنت کرکے جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور فروخت کر کے اپنا پیٹ پالو جس سے تمہاری خود داری بھی قائم رہے گی اور اللہ تمہاری محنت میں برکت بھی ڈالے گا روایات میں ہے کہ بعد میں وہی صحابی کافی دولت مند ہو گئے۔ قرض لینے اور بھیک مانگنے سے خود داری جاتی رہتی ہے دُنیا کے سب سے بڑے معاشیات دان نبی آخرالزماں حضرت محمدۖ کا وہ فرمان جس پر آج بھی اگر ہر مسلمان مکمل عمل کر لے تو غربت کا نام و نشان باقی نہ رہے اور قرض لینے کی نوبت تک نہ آئے میرے آقا کریم کی عظیم بارگاہ میں ایک صحابی حاضر ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ارشاد فرمائیے میرے لیے سب سے اچھا اور بہترین صدقہ کیا ہے فرمایا یہ بتاؤ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، عرض کیا شادی شدہ ہوں میرے اہل و عیال ہیں فرمایا جو تم اُن پر خرچ کرو وہ تمہارے لیے بہترین صدقہ ہے صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کے بعد فرمایا تمہارے والدین اگر وہ زندہ ہیں تو جو تم اُن پر خرچ کرتے ہو یہ سب سے بہترین صدقہ ہے عرض کیا یا رسول اللہۖ اس کے بعد فرمایا تیرے والد کے رشتہ دار ، تیرے چچے، تائے اور پھوپھیاں جو تم اُن پر خرچ کرتے ہو وہ بہترین صدقہ ہے۔
عرض کیا یا رسول اللہ اس کے بعد فرمایا تیری والدہ کے رشتہ دار، تیرے ماموں اور تیری خالائیںجو تم اُن پر خرچ کرتے ہو عرض کیا یا رسول اللہ ۖ اس کے بعد فرمایا تیرا ہمسایہ ۔ قارئین کرام یہ فرمانِ نبوی معاشیات کا ایک ایسا سائنٹیفک اصول ہے جسے آج بھی اپنا لیا جائے تو یقیناً ہر شخص خوشحال ہو سکتا ہے چونکہ دُنیا میں صرف چند ایک ایسے بدقسمت ہوں گے جو ان رشتوں کے بندھن سے آزاد ہوں ورنہ ہر انسان ان حسین رشتوں کے بندھن میں جُڑا ہوا ہے اس معاشیات کے فارمولے سے ہر شخص کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے جبکہ اُس کا بھرم اور خود داری بھی قائم رکھی جا سکتی ہے۔ دُنیا کا کوئی چیرٹی کا نظام اور سوشل ویلفیئر میکنزم ایسا نہیں جو اس حدیثِ نبوی کا مقابلہ کر سکے بلکہ سارے نظام اس کے سامنے عاجز کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ہمارے دینِ مبین نے بھی خود انحصاری اور خود داری اپنانے کو اولیت دی ہے۔
ماں جی نے یہ حدیثِ مبارکہ سُنی تو مجھے کہا بیٹا تم خود سمجھ جاؤ مسلمان دُنیا بھر میں ذلیل و خوار کیوں ہو رہے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے اپنوں کو چھوڑ کر غیروں سے دوستی اور اپنے وسائل پر انحصار کو چھوڑ کر قرضوں پر انحصار ان کی تباہی اور بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ میرے بیٹے آج سے اگر ہم خود انحصاری اور خود داری کے وصف اپنا لیں محنت کو اپنا شعار بنا لیں تو دُنیا کا ہر بجٹ بنانے میں سُرخرو ہو سکتے ہیں۔ بات صاف واضح ہے مگر ہم سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔
علامہ اقبال نے بھی اس فلسفہ کو ایک شعر میں بیان کر دیا تھا:۔ مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر