تحریر : صائمہ مریم وقت اور زمانہ صدا یک سا نہیں رہتا غیر محسوس طریق پر ایسی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوتی ہیں جو ہمارے مزاج عادات و اطوار اور ارد گرد کے ماحول کو بدل کر رکھ دیتی ہیں ۔ جنہیں ہم دیکھتے ہیں اس پر سوال بھی اٹھاتے ہیں ۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم تصویر کا صرف ایک رخ ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ہم اس ماحول اس جگہ اور اس کیفیت سے آشنا نہیں ہوتے ۔ اس لئے بظاہر جو نظر آرہا ہوتا ہے اسی پر اپنی حتمی رائے قائم کر لیتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقعہ صائمہ کنول ٹی وی رپورٹر کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ جس معاشرے میں عورت کو پاوں کی جوتی سمجھاجاتا ہو ہر گالی عورت سے شروع ہوکر عورت پر ختم ہو جہاں عورت کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہو وہاں یہ توقع رکھنا کہ عورت کو تھپڑ مارنا اخلاق کے دائرے میں نہیں آتا حیرت انگیر بات نہیں ۔ عورت سے جو سلوک ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں یکطرفہ غیرت کی بہت سی مثالیں ہمیں پاکستانی معاشرے میں خصوصا اور دیگر ممالک میں عموما مل جائیں گی۔
جو افسوسناک واقعہ کراچی میں پیش آیا اسی قسم کے حالات فیصل آباد پاسپورٹ آفس میں اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ جب پاسپورٹ بنوانے وہاں پہنچی تو ایک سیکورٹی گارڈ خواتین کی لائین کے سب سے آگے براجمان تھا اس کے دونوں طرف خواتین تھیں جن کے ہاتھ کو بار بار پرے دھکیل رہا تھا اور جو خاتون رشوت کے پیسے بحالت مجبوری جمع کر وادیتی اس کے کاغذات اسی کھڑکی سے اندر پہنچا دیتا تھا ۔ کچھ ہی فاصلے پر مردوں کی بھی لائین تھی وہ بھی خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے ۔ کسی میں اتنی جرات اور اتنی غیرت ہی نا تھی کہ اسے اس کے اس فعل پر برا بھلا کہتا یا وہاں سے ہٹاتا ۔ میں لائین میں ایک گھنٹہ سے زائد کھڑی رہی مگر میرا کام باوجود کاغذات پورے ہونے کے نہیں ہوا ۔ لائیبریا کے ائیر پورٹ بھی ایسی ہی صورتحال تھی ۔ مگر اسلامی اور غیر اسلامی ملک میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے ۔ مجھے ناچاہتے ہوئے بھی رشوت دینا پڑی تب کہیں جاکے میرا کام ہوا۔
پھر لاہور ائیرپورٹ پر بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا ۔ جب میرے کاغذات مکمل تھے شروع سے آخری ڈیسک تک آتے آتے ہر چیز مکمل تھی اور کسی پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ۔ مگر ویٹنگ روم کے باہر کھڑا پو لیس والا اسی مقصد کے لئے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہا تھا کہ جہا ں تک ممکن ہو رشوت لے کر ہی جانے دیا جائے ۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ بھی تھا کہ منزل آپ کے بالکل سامنے ہے اور آپ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جب تمام مرحلوں سے آپ گزر گئے ہیں تو لوٹ جانے کی بجائے کچھ دے دلا کر گلو خلاصی کی جائے۔
Saima Kanwal
یہ موقع ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنے حق کے لئے لڑ بھی نہیں سکتے ۔ اب اگر ایک خاتون نے ایسا کام کیا ہے تو میں اس کی جرات کو سلام پیش کرتی ہوں ۔ کم از کم باقی جگہوں پر اس کا تدارک کرنے کی کوشش کی جارہی ہو گی ۔ ٹی وی رپورٹر صائمہ نے کامران خان کو دیئے اپنے ایک حالیہ انٹر ویو میں وضاحت پیش کی کہ یہ سیکورٹی گارڈ خواتین سے بدسلوکی کر رہا تھا ۔ ان سے بدتمیزی بھی کی اور زبان کا استعمال بھی مناسب نہ تھا ۔ ایک کمزور دفاع صائمہ نے یہ بھی کیا کہ وہ وردی پکڑ کر یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ اس نے یہ وردی کس سیکورٹی محکمے کی پہن رکھی ہے ان کا یہ موقف کافی کمزور ہے اور ان کے اس عمل کا جواز مہیا نہیں کرتا جس کی وجہ سے اسے تھپڑ کا سامنا کرنا پڑا ۔ جب ایک عورت جس کے پاس کسی حد تک ایک اختیار بھی تھا عورتوں کے ہی حق میں آواز اٹھائی۔ ان کا یہ قدم یقینا قابل تعریف ہے ۔ یہ بات نیوز رپورٹر نے بھی تسلیم کی کہ ایک صحافی کی کچھ حدود و قیود ہیں جن پر اب عمل کیا جائے گا ۔ ا یک بہتر انسان غلطیوں سے ہی سبق حاصل کرتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سدھاراور اعلی اخلاق کا مظاہرہ صرف عورت کی طرف سے ہی ہونا چاہیے ۔ کیا اس سلسلہ میں ا س سیکورٹی گارڈ اور اداروں کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ ان اقدامات پر مثبت اور عملی قدم اٹھائیں کچھ اپنا بھی محاسبہ کریں ۔ عورتوں کی عزت کرنا سیکھیں اور رشوت جیسے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں جوکہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔ اس کی ایک عمدہ مثال چنیوٹ پوسٹ آفس کی ہے ۔ جہا ں کا عملہ فرض شناس اعلی کردار کا حامل ہے اور اگر آپ کے کاغذات مکمل ہیں تو بغیر رشوت کے آپ کا کام بآسانی ممکن ہے۔
میں نے جب یہ ماحول دیکھا تو میرے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھا ۔ کام مکمل ہوجانے پر سب کا شکریہ ادا کیا اور ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی تعریف بھی کی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے ہر ادارے اور خاص طور سے گورنمنٹ کے اداروں میں ایسی عمدہ مثالیں قائم کی جائیں ۔ جو یقینا ناممکن نہیں اور نا ہی مشکل ہے صرف نیت کا نیک ہونا ضروری ہے۔